دعا کی عظمت و اہمیت
December 10,2018 - Published 5 years ago
دعا ایک عظیم
عبادت،عمدہ وظیفہ اور اللہ پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ عمل ہے، دعا در حقیقت بندے اور اس کے خالق و مالک
کے درمیان کلام، راز و نیازاور بندگی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ دعا بندے کو رب سے
ملانے، اس کی بارگاہ میں حاضر ہونےکی ایک صورت ہے۔ عام طور پرجو سکون و راحت دعا
کرنے سے حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور عبادت
میں حاصل نہیں ہوتی۔ دعا عبادت بلکہ مغزِ عبادت ہونے کی وجہ سے جس طرح آخرت کے
اعتبار سے فائدہ مند ہے اسی طرح دنیا میں بھی بہت مفید ہے ،مثلاً مشکلوں، مصیبتوں،
پریشانیوں اور بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے دعا ایک اہم ذریعہ ہے۔دعا کی عظمت و
اہمیت پر قرآن و سنت میں کثیر آیات و احادیث وارد ہوئی ہیں۔چنانچہ
دعا کے متعلق ارشادِ باری تعالٰی:
قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا:
· اُجِیْبُ
دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا دعا
قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (پارہ ۲، سورہ بقرہ،آیت
نمبر۱۸۶)
· ادْعُوۡنِیۡۤ
اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں
گا۔ (پ۲۴،
المؤمن: ۶۰)
· فَاسْتَجَبْنَا
لَہٗ ۙ وَ نَجَّیۡنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ؕ وَکَذٰلِکَ نُـنْجِی الْمُؤْمِنِیۡنَ۔
پس ہم نے یونس کی دعا قبول فرمائی اور اسے غم سے نجات
دی اور یونہی نجات دیں گے ایمان والوں کو۔ (پ۱۷، الأنبیاء : ۸۸)
دعا کے متعلق احادیث نبوی ﷺ:
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
· دعا ہی عبادت ہے۔ (سنن ابی
داؤد،باب الدعا ،جلد نمبر۱،صفحہ ۴۶۶،حدیث نمبر۱۴۷۹،شاملہ)
· دعا عبادت کا مغز ہے۔ (سنن ترمذی، باب الدعوات،جلد ۵،صفحہ ۴۵۶،حدیث نمبر۳۳۷۱،شاملہ)
· سب سے زیادہ بزرگی والی عبادت دعا ہے۔ (الا دب المفرد للبخاری،حدیث نمبر ۷۱۲،شاملہ)
· سب سے افضل عبادت دعا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین،جلد ۲،صفحہ ۱۴۳، حدیث نمبر۱۸۰۵شاملہ)
· دعا رحمت کی کنجی ہے اور وضو نماز کی کنجی ہے اور نماز جنت
کی کنجی ہے۔ (فیض القدیر ،جلد ۳،صفحہ ۵۴۰حدیث نمبر ۴۲۵۷،شاملہ)
· دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمانوں اور
زمینوں کا نور ہے۔(المستدرک علی الصحیحین،جلد ۲،صفحہ ۱۴۴، حدیث نمبر۱۸۱۲شاملہ)
· دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بے شک نیکی رزق کو زیادہ کرتی
ہے۔ بے شک بندہ اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم رہتا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین،جلد نمبر۲،صفحہ نمبر۱۴۵، حدیث نمبر۱۸۱۴شاملہ)
· اے میرے بچے! دعا کی کثرت کر کیونکہ دعا تقدیر مبرم کو ٹال
دیتی ہے۔(الترغیب فی فضائل الاعمال ،جلد۱،صفحہ ۱۶۳حدیث نمبر ۱۵۰شاملہ)
قارئین کرام! آپ نے
ملاحظہ فرمایا کہ قرآن و حدیث میں دعا مانگنے کے کتنے فضائل ہیں اور اللہ
پاک دعا مانگنے
والوں کو کس قدر پسند فرماتا ہے اور انہیں ان کی دعاؤں کا بدلہ دنیا اور آخرت میں
عطافرماتاہے ۔دعا کے بے شمارفوائد و ثمرات ہیں جن سے ہمیں محروم نہیں رہنا چاہیےاور
کثرت سے دعا مانگنی چاہیے کہ جو بگڑے کام کو سنوارتی اور مصیبت سے بچاتی ہے۔دعا کی قبولیت کی ایک ایسی
ہی ایمان افروز حکایت ملاحظہ فرمائیں۔چنانچہ
دعا کے کی برکت سے گمشدہ بیٹا مل گیا:
حضرتِ سیِدنا ابو
سلیمان رومیرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ میں نے حضرتِ سیدناخلیل
صیّادرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہکو یہ کہتے ہوئے سنا: ایک مرتبہ میرا بیٹا
شہر سے باہر کھیتوں کی طرف گیا اورگم ہوگیا ، خوب ڈھونڈا لیکن کہیں نہ ملا، بیٹے
کی جدائی پر اس کی ماں غم سے نڈھال ہوگئی۔ میں حضرت سیِّدنا معروف کرخیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے ابو محفوظ! میرابیٹا لاپتہ
ہوگیا ہے۔ اس کی والدہ بیٹے کی جدائی میں غم سے نڈھال ہوئی جارہی ہے۔آپ نے فرمایا: اب تم کیا چاہتے
ہو؟میں نے کہا: حضور! دعا فرمائیں کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے بیٹے کو ہم سے ملوادے۔
یہ سن کر ولی کامل، مقبولِ بارگاہِ خداوندی، حضرت سیِّدنا معروف کرخیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اوراس طرح التجا کی:’’اے میرے پرورد گارعَزَّ وَجَلَّ! بے
شک تمام آسمان تیرے ہیں ، زمین تیری ہے اورجو کچھ بھی ان کے درمیان ہے سب کا مالک
وخالق توہی ہے۔ میرے مالک! ان کا بچہ انہیں لوٹا دے۔‘‘حضرت سیِّدنا خلیل صیّادرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکہتے ہیں : پھر میں آپ کی اجازت سے شہر کے دروازے پر آیا تو اپنے
بیٹے کو وہاں موجود پایا اس کا سانس پھول رہا تھا ۔ میں نے جب اپنے بیٹے کو
دیکھاتو فرطِ محبت سے پکارا: اے محمد! اے میرے بیٹے! میری آواز سن کر وہ میری طرف
لپکا۔ میں نے اسے سینے سے لگا کرپوچھا: میرے لختِ جگرتم کہاں تھے؟ کہا: ابا جان
میں گندم کے کھیتوں میں مارا مارا پھر رہا تھاکہ اچانک یہاں پہنچ گیا۔ میں اپنے
بچے کو لے کر خوشی خوشی گھرکی طرف چل دیا۔ یہ حضرت سیِّدنا معروف کرخی کی دعا کی
برکت تھی کہ مجھے میرا بیٹا مل گیا۔ (عیون الحکایات،الحکایۃ الحادیۃ عشرۃ
بعد الثلاثمائۃ ،ص۲۷۸ماخوذاً)
دعا کی قبولیت میں رکاوٹ:
یادرہے!اللہ پاک
سب کی دعائیں قبول فرماتا ہے مگر اس کا بدلہ کبھی فوراً تو کبھی تاخیر سے دیتا ہےیہ
سب اس کی حکمت پر ہے مگر بعض اوقات ہمارے کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ہماری دعاؤں
کی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں ۔چنانچہ منقول ہےکہ حضرت
موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامکے
زمانے میں قحط پڑا، آپ بنی اسرائیل کو لے کر تین بار دعا کے واسطے گئے مینہ نہ
برسا(یعنی
بارش نہ ہوئی)،
اللہ کریم نے وحی بھیجی:اے موسیٰ! میں تیر ی
اور تیرے ساتھ والوں کی دعا قبول نہ کروں گا کہ تم میں ایک نَمام(چُغل خور)ہے کہ ایک کا عیب دوسرے سے بیان کرتا ہے۔عرض کی:اے
رب!وہ کون ہے کہ اس کو ہم اپنے گروہ سے نکال دیں؟ حکم آیا: میں تمہیں نمیمی(چغل
خوری)سے منع کرتا ہوں اور خود ایسا کروں؟سیدنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سب کو توبہ کا حکم کیا، توبہ کے بعد دعا
مانگتے ہی بارش برسی۔ (إحیاء العلوم''،
کتاب الأذکار والدعوات، الباب الثاني، ج۱، ص۴۰۷۔ مترجم)
قارئین کرام ! غور
فرمائیں صرف ایک شخص کی چغل خوری سب کی
دعاؤں میں رکاوٹ کا سبب بن گئی ۔آج ہم اپنی حالت پر غور کریں کہ ہم کس قدر گناہوں
کے دلدل میں دھنس چکے ہیں ،بھلا ہماری دعائیں کیسے مقبول ہونگی !ہمیں چاہیے کہ ہم
خود کو گناہوں اور بری عادتوں سے محفوظ رکھیں تاکہ بد اعمالی ہماری اور ہمارے ارد
گرد کے لوگوں کی دعاؤں کی قبولیت میں
رکاوٹ نہ بنے۔ رب کریم ہمیں کثرت سے دعا کرنے والا بنادے اور نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْنْ
بِجَاہِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم