اسلاف کے قلم سے
ہَمَہ گیر انقلاب
محسنِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ ارشدُ القادری رحمۃُ اللہِ علیہ
ماہنامہ ستمبر 2024
انسان زندگی میں اپنی خداداد صلاحیت،علمی قابلیت، حُسنِ عادت اور دینی خدمت کی بدولت لوگوں کے دلوں میں اپنی قدر و عظمت پیدا کرتا ہے۔ رئیسُ التحریر، محسنِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ ارشدُ القادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی شخصیت بھی انہی خوبی و کمال کی جامع تھی، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے نہ صرف زبان و بیان کے ذریعے مسلکِ حق اہلِ سنّت کی ترویج و اِشاعت فرمائی بلکہ قِرطاس و قلم کے ذریعے بھی لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح فرمائی اور حضور نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت و تعلیمات کو عام فرمایا۔ 39سال قبل 1985ء کے ستمبر میں آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا، اس کالم کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر اسے ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کے قارئین کے لئے پیش کیا جارہا ہے:([i])
ایک صدی نہیں، آدھی صدی نہیں، چوتھائی صدی سے بھی کم صرف 23سال کی مدت میں رُوئے زمین پر اتنا بڑا روحانی اور مذہبی انقلاب برپا ہوا کہ آج تک اس کی برکتیں آسمان کے بادل کی طرح برس رہی ہیں، سورج کی روشنی کی طرح چمک رہی ہیں اور ہمیشہ تازہ رہنے والے پھولوں کی طرح مہک رہی ہیں۔
ایسا انقلاب جس نے زمین کا جغرافیہ بدل دیا، ریاستوں کے نقشے بدل دیے، قوموں کا ذہن بدل دیا، اخلاق کے معیارات بدل دیے، مجد و شرف عزّت و بزرگی کا معیار بدل دیا، فکر کے زاویے بدل دیے، دلوں کے تقاضے بدل دیے، طبیعتیں بدل دیں، معاشرے کا ڈھانچہ بدل دیا، زندگی کے قافلوں کی سمتیں بدل دیں، لذت و مسرت اور تکلیف و آرام کے احساسات بدل دیے، یہاں تک کہ صدیوں کے بگڑے ہوئے انسانوں کو ایسا بدل دیا کہ وہ اپنے ظاہر سے بھی بدل گئے اور باطن سے بھی، وہ اپنے اندر سے بھی بدل گئے اور باہر سے بھی، بلکہ بدلنے والے اس شان سے بدلے کہ جسے دیکھ لیا، وہ بھی بدل گیا۔
اور انقلاب کی گہرائی میں اتریے تو اتنا ہمہ گیر(ہرچیز پر یا ہرسمت چھایا ہوا) اور رنگا رنگ انقلاب کہ بیک وقت اسے مذہبی انقلاب بھی کہیے اور زرعی انقلاب بھی، اسے علم وفکر کا انقلاب بھی کہیے اور آئین و دستور کا انقلاب بھی، اسے تمدنی و تہذیبی انقلاب بھی کہیے اور انفرادی و اجتماعی انقلاب بھی، اسے علاقائی انقلاب بھی کہیے اور عالمی انقلاب بھی۔
ایسا انقلاب جو حیاتِ انسانی کے ہر شعبے پر حاوی، تنہا ایک انسان کی ذات سے کیوں کر وجود میں آگیا؟
(1)نوٹ: چند مقامات پر مشکل تعبیرات کو آسان کیا گیا ہے۔ مجلس ماہنامہ فیضانِ مدینہ
اتنا عظیم انقلاب، جو دنیوی زندگی کی کامرانی کا بھی ضامن ہوا اور اخروی نجات کا بھی پروانہ عطا کرتا ہو، ایک ایسے اکیلے اور تنہا ہاتھ سے کیوں کر انجام پایا، جس کا خدا کے سوا اس دنیا میں نہ کوئی معلم تھا، نہ مربی، نہ کوئی محافظ تھا، نہ نگہبان، سارا خاندان، جس سے شاکی ہو، جس کا قبیلہ اس سے منحرف، سارا مکہ جس کے خون کا پیاسا اور سارا عرب جس کا دشمن؟
اَسباب و عِلَل کی بنیاد پر واقعات کو جانچنے والی عقل کیا اس گتھی کو سلجھا سکتی ہے کہ وہ عرب جو صدیوں سے کفر و شرک، فواحش و منکرات اور طرح طرح کی وحشت و درندگی میں ڈوبا ہوا تھا، وہ پلک جھپکتے ہی اندر سے باہر تک کیوں کر بدل گیا؟
اخلاقی برائیوں سے کسی فرد یا جماعت کا تائب ہو جانا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں، لیکن یہ بات معجزہ کی حد تک ضرور حیرت انگیز ہے کہ ملک کا ملک اپنا آبائی مذہب بدل لے اور تبدیلی کا ردِ عمل بھی ایسے جذبے کے ساتھ ہو کہ پُرانے دین کا ایک ایک نشان جب تک پوری طرح مٹ نہیں گیا، دلوں کو قرار کے لمحات میسر نہ آئے۔
اور کیا انسانی تاریخ میں اس واقعہ کی اور کوئی مثال مل سکتی ہے کہ ایک معصوم پیغمبر(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) لگا تار تیرہ سال تک کفار مکہ کے لرزہ خیز مظالم کا سامنا کرتا ہے، یہاں تک کہ ایک دن تنگ آکر وہ مدینے کی طرف ہجرت کر جاتا ہے۔ اور ابھی آٹھ سال بھی نہیں گزرنے پائے تھے کہ وہی پیغمبر(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) ایک دن بارہ ہزار کا لشکر جرار لیے ہوئے عظیم فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہو جاتا ہے لیکن انداز ایسا عاجزی والا ہوتاہے کہ زمانہ حیران ہے۔
عقل کہتی ہے کہ یہ تلواروں کا برپا کیا ہوا انقلاب ہر گز نہیں ہو سکتا، یہ فکر و ذہن کا انقلاب تھا۔ پھر دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ فتحِ مکہ کے بعد سارے جزیرہ عرب سے بتوں کی مصنوعی ہیبت اور فرضی خداؤں کا جنازہ اس دھوم دھام سے اٹھا کہ تلوار اٹھانا تو بڑی بات ہے، کوئی آنسو بہانے والا بھی نہ تھا۔
اور اس کے بعد اسلام کا یہ سیلاب زمین کے طول و عرض میں اس تیزی کے ساتھ پھیلتا گیا کہ خلفائے راشدین کے عہد میمون میں اسلامی اقتدار کا سورج خط نصف النہار پر جگمگانے لگا۔ اور ابھی ایک صدی بھی گزرنے نہیں پائی تھی کہ اس کی دھوپ ایشیا، یورپ اور افریقہ کے صحراؤں، پہاڑوں اور ریگ زاروں، نیز سارے بحر و بر اور خشک و تر پر پڑنے لگی۔
دلوں کو پگھلا دینے والی، فکر کو جگا دینے والی اور عقل کو لرزا دینے والی یہی وہ منزل ہے، جہاں ہم اپنا قلم روک کر دنیا کے دانشوروں کے سامنے ایک سوال رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں کہ کیا دنیا میں اس سے پہلے بھی اس طرح کا کوئی روحانی، اخلاقی اور سیاسی انقلاب انھوں نے دیکھا ہے؟
طاقت کے ذریعہ زمینوں، آبادیوں اور ملکوں پر قبضہ کرنے والے ایک سے ایک بادشاہ ہم نے دیکھے ہیں، لیکن تاریخ میں ایک بھی ایسا فاتح ہماری نظر سے نہیں گزرا، جس نے آبادیوں پر قبضہ کرنے سے پہلے دلوں کی سرزمین فتح کرلی ہو۔ جس نے قلعوں کی فصیلوں اور برجوں پر اپنا جھنڈا گاڑنے سے پہلے دلوں کی سرزمین پر اپنا جھنڈا نصب کر دیا ہو۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کی طاقت سے پھیلا ہے، انھیں اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں آنا چاہئے۔ وہاں تلوار پیغمبر (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے ہاتھ میں نہیں تھی، کفارِ مکہ کے ہاتھوں میں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں تلواریں بھی چلیں، تیر بھی برسے، اور طاقت بھی استعمال میں لائی گئی، لیکن اسلام کو پھیلانے کے لیے نہیں، بلکہ اسلام کی پیش قدمی کو روکنے والے سفاک درندوں کی تلواروں کی ضرب سے لوگ زخمی ہوتے رہے، قید و بند کی آزمائشوں میں سلگتے رہے، لیکن کلمۂ حق کے ساتھ والہانہ عقیدت کا نشہ تھا کہ اترنے کے بجائے اور چڑھتا ہی رہا۔
رسالتِ محمدی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت انسانی فطرت کا یہ تقاضا اگر نظر میں رکھا جائے، تو اسلام کی حقانیت کے احساس میں اضافہ ہو جائے گا اور وہ یہ کہ آدمی دل کی رغبت کے ساتھ وہیں قدم رکھتا ہے، جہاں کوئی خطرہ نہ ہو، یا جہاں آرام اور منفعت کی کوئی امید ہو۔ سب جانتے ہیں کہ مکہ میں آسائش و منفعت کے سارے وسائل قریش اور کفارِ مکہ کے ہاتھوں میں تھے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قریب آنے والوں کی مادی آسائش و منفعت کی کوئی توقع نہ تھی۔ لوگ دن رات اپنی آنکھوں سے یہ تما شادیکھتے تھے کہ جس نے بھی رسول کا کلمہ پڑھا، اس کا جینا دو بھر ہو گیا اور مکہ کی پوری آبادی در پئے آزار ہو گئی۔
اب اہلِ عقل و دانش ہی فیصلہ کریں کہ ان حالات میں فطرت انسانی کا تقاضا کیا ہونا چاہیے؟ کیوں ایسا نہیں ہوا کہ لوگ کلمہ پڑھنے والوں کا حشر دیکھ کر عبرت پکڑتے!
آخر نبی کی آواز میں وہ کون سی کشش تھی، جس نے ان کی فطرت کو ہر طرح کے احساس زیاں سے بے نیاز کر دیا تھا؟
آخر وہ کون سا جذبہ اور شوق تھا، جس نے پروانوں کی طرح جل مرنے کی آرزو ان کے سینوں میں پیدا کر دی تھی؟ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اظہارِ عشق کا انجام کیا ہوگا، وہ بے خوف اپنے مقتل کی طرف بڑھتے چلے گئے۔
مکہ کی سرزمین پر شہیدانِ وفا کے لہو کا ہر قطرہ پکارتا ہے کہ پیغمبر نے تلوار چلا کر نہیں، قراٰن سنا کر اسلام پھیلایا، اور مکہ کی گلیوں اور بازاروں میں پتھروں کی چوٹ سے زخمی ہونے والے مظلوموں کا ہر زخم آواز دیتا ہے کہ قبول کرنے والوں نے خوف سے نہیں، شوق سے اسلام قبول کیا ہے۔۔۔ دل پہلے مومن ہوا، اس کے بعد زبان نے کلمہ پڑھا۔
جو لوگ بَدر و اُحد کے معرکوں کو سامنے رکھ کر اسلام پر تلوار اٹھانے کا الزام رکھتے ہیں، وہ مکہ کے مقتل کا معائنہ کیوں نہیں کرتے؟۔۔۔ وہ غارِ ثور میں جھانک کر حق کی مظلومی کا رقت انگیز منظر کیوں نہیں دیکھتے؟۔۔۔ وہ شعب ابی طالب میں قیدیوں کی بے قرار اور سوگوار راتیں کیوں نہیں دیکھتے؟۔۔۔ وہ تاریخ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ مکہ میں اسلام کے پھیلنے کی ابتدا کس طرح ہوئی تھی؟۔۔۔ کس کے قہر و جبر سے لوگ اندھیری راتوں اور پہاڑ کی گھاٹیوں میں چھپ کر اسلام قبول کرتے تھے؟
وہ کیوں نہیں دیکھتے کہ مکہ میں اسلام اس وقت سے پھیل رہا تھا، جب بَدر و اُحد کے معرکے کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھے۔
مکہ میں اسلام اس وقت بھی پھیل رہا تھا، جب تلوار اسلام کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں تھی۔
اس لیے تاریخ کی اس سچائی کے سامنے ہر شخص کو سر تسلیم خم کردینا چاہیے کہ اسلام دنیا میں اس لیے پھیلا کہ اسلام ہی انسان کا فطری مذہب ہے۔ جس نے بھی اسلام قبول کیا، اس نے جبر کا نہیں، بلکہ اپنی فطرت کا تقاضا پورا کیا۔
(موسوعہ اسلامیہ، افکار و خیالات، 11/179تا183)
Comments