Book Name:Farooq e Azam Ki Aajizi o Sadgi

     پىارے اسلامى بھائىو! پہلی حکایت میں ہم نے سنا تھا کہ حضرت جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَامنے اَمِیْرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  کی یہ خوبی بیان فرمائی تھی کہ آپ حق بات کرتے ہیں ، حق کی طرف ہدایت دیتےہیں اور حق کےساتھ ہی اس دنیا سے تشریف لے جائیں گے۔ واقعی آپ کی شان یہ تھی کہ آپ کی زبان سے حق ہی نکلتا تھا ، آپ حق ہی کی طرف ہدایت دیتے تھے اور حق کے ساتھ ہی اس دنیا سے تشریف لے گئے ، اس سے بڑھ کر آپ کے حق فرمانے کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ کئی بار ایسا ہوا کہ آپ  جس بارے میں کچھ فرما دیتے تو قرآنِ پاک کی آیات اسی مضمون کے ساتھ اُترتی تھیں جو آپ  نے فرمایا ہوتا ، چنانچہ

     حضرت مجاہد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  فرماتے ہیں : کَانَ عُمَرُ یَرَی الرَّاْیَ فَیَنْزِلُ بِہِ الْقُرْآنُ یعنی اَمِیْرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جب کوئی رائے(Opinion) پیش فرماتے تو اُسی کے مطابق قرآنِ پاک کا نزول ہوجاتا ۔ ( تاریخ الخلفاء ، ص۹۶ ، الصواعق المحرقۃ ،  ص۹۹)

     اَمِیْرُالمؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے صاحبزادے حضرت عبدُاللہبن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : جب کسی معاملے میں مختلف صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے رائے طلب کی جاتی اور ساتھ ہی میرے والدِ محترم بھی اپنی رائے پیش کرتے تو قرآنِ کریم آپ کی رائے کے مطابق اُترتا۔

(فضائل الصحابۃ ، و من فضائل عمر بن الخطاب ، ۱ / ۴۱۵ ، حدیث : ۴۸۸ ، تاریخ الخلفاء ، ص۹۶)

     اے عاشقانِ صحابہ! جب کسی شخص میں   لا تعداد ایسے اوصاف موجود ہوں   جو اس کی شخصیت کی بھرپور عکاسی کرتے ہوں   اور لوگوں   میں   ان کا چرچہ بھی ہو تو بسا اوقات ایسا شخص اپنے نفس کے مکرو فریب میں   آکر تکبراور خود پسندی جیسے امراض میں   مبتلا ہو جاتاہے ، لیکن امیر المؤمنین