Book Name:Seerat-e-Data Ali Hajveri

اولاد “ صفحہ نمبر17پر ہے کہ ایک مرتبہ ایک مجرم  تختۂ دار پر لٹکایا جانے والا تھا ۔ جب اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس کی یہ خواہش پوری کردی گئی ۔ جب ماں اس کے سامنے آئی تو وہ اپنی ماں کے قریب گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کان نوچ ڈالا۔ وہاں  پر مَوْجُود  لوگوں نے اسے ڈانٹا کہ بیوقوف! ابھی تُو پھانسی کی سزا پانے والا ہے تُونے یہ کیا حرکت کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے پھانسی کے اس تختے تک پہنچانے والی یہی میری ماں ہے ، کیونکہ میں بچپن میں کسی کے کچھ پیسے چُرا کر لایا تھا تو اس نے مجھے ڈانٹنے کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی اوریوں میں جرائم کی دُنیا میں آگے بڑھتا چلاگیا اور بالآخر آج مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔ (تربیتِ اولاد ، ص۱۷بتغیر قلیل)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!سنا آپ نے کہ ماں کی لاپرواہی اور اس کی غلط تربیت نے کیا گُل کِھلائے کہ اس  کے بیٹے نے جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا بالآخر پھانسی کی سزا پاکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ، اس کے بر عکس جن ماؤں کا کردار آئینے سے زیادہ شفاف ہوتا ہے ، جن کے سینے خوفِ خدا و عشقِ مُصْطَفٰے سے منور ہوتے ہیں ، جو دنیا کی فانی آسائشوں میں ڈوبی نہیں ہوتیں ، شرم و حیا جن کے خمیر میں شامل ہوتی ہے ، اسلام کی سربلندی کی خاطر جینے مرنے کا جذبہ جن کے خون میں سرایت کرچکا ہوتا ہے ، جنّت کی ابدی نعمتیں جن کے پیشِ نظر ہوتی ہیں ، تو یہی مدنی سوچ وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں  میں بھی منتقل کرتی رہتی ہیں ، پھرایسی ماؤں کی گود سے مُحدّثین ، مجدِّدین ، مُفسّرین ، اولیائے کرام ، مفتیانِ کرام ، علمائے عظام ، مسلمانوں کے اِمام ، دینِ اسلام کی خاطر جانیں قربان کر دینے  والوں نیز خوفِ خدا و عشقِ مُصْطَفٰے کی دولت سے مالا مال اسلامی حکمرانوں نے جنم لیا۔

لہٰذا والِدَین کو چاہئے کہ وہ سمجھداری کا مُظاہَرہ کریں ، اپنی سوچ میں تبدیلی  لائیں اوراللہ  پاککی اس نعمت کی قدر کریں نیز ان کی تربیت  کرتے ہوئے خود بھی ہر چھوٹے بڑے گناہ سےبچنے کی کوشش کریں ، غیر محارم سے شرعی پردہ کریں ، فرائض و واجبات ، سُنَن و مستحبات کی پابندی کریں ، ظاہری و باطنی علوم سیکھیں ، اچھی عادتیں اور اچھے اخلاق اپنائیں ، اپنے بچوں کے ذہنوں میں بھی ایسی ہی  مدنی سوچ  پیداکریں ، بچے شرارت کریں تو ہمیشہ تنہائی میں نرمی سے  سمجھائیں ، بُرے دوستوں اور بد عقیدہ لوگوں کی صحبت میں ہرگز نہ بیٹھنے دیں کہ  بد عقیدہ