فن حدیث میں امام اہل سنت کا مقام علما کی نظر میں / عظیم علمی شاہکار( فتاویٰ رضویہ)

العلم نور

فن حدیث میں امام اہل سنت کا مقام علما کی نظر میں

مفتی محمد حسان رضا عطاری مدنی

ماہنامہ صفر المظفر1439

علمِ حدیث میں کسی ہستی کے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرنے کے لئے مُحَدِّثِیْن نے مختلف القابات ذکر کئے ہیں ، مثلاً حافظ ، حُجَّت ، مُسْنَد ، وغیرہ ، جب کسی کے انتہائی بلند درجے کو ظاہر کرنا ہو تو علما اس کے لئے اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیْث کا لقب ذکر کرتے ہیں ، اَسلاف (بزرگوں) میں کئی ایسے محدِّثین گزرے ہیں جن کو اس لقب سے پکارا گیا۔ حافظ حسن بن محمد البکری  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  نے اس موضوع پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے : “ اَلتَّبْيِيْنُ لِذِكْرِ مَنْ تسَمّٰى بِاَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ “ اس کتاب میں اُن محدثین اور فقہائے کرام کا تذکرہ کیا ہے جن کو اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیْث یا امیرُ المؤمنین فی الفقہ قرار دیا گیا ۔

اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیْث کا معنی ہے وہ ہستی جو اپنے زمانہ کے تمام علما پر اس علم میں فوقِیت رکھتی ہو۔ حضرت سیّدنا سفیان ثوری  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  نے امام شُعبہ  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  کو اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیْث کا لقب دیا ، اس لقب کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن ابی حاتم رازی  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  لکھتے ہیں : يعني فَوقَ العُلماء في زَمانِه یعنی سیّدنا سفیان ثوری  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  کا مقصود یہ ہے کہ امام شعبہ  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  اپنے زمانہ کے علما پر فائق ہیں۔ (مقدمۃ كتاب الجرح والتعديل ، 1 / 126)

اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلِ سنّت ، اِمام اَحمد رضا خان  علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن  جس طرح دیگر کئی علوم میں اپنی نظیر آپ تھے یونہی فنِ حدیث میں بھی اپنے زمانہ کے علما پر آپ کو ایسی فوقیت حاصل تھی کہ آپ کے زمانہ کے عظیم عالم ، 40سال تک درسِ حدیث دینے والے  شیخُ المحدثین حضرت علّامہ وصی احمد سُورَتی  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ   نے آپ کو اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن فِی الْحَدِیْث کا لقب دیا۔                               (ماہنامہ المیزان ، بمبئی ، امام احمد رضا نمبر ، اپریل ، مئی ، جون 1976ء ص247)

فنِ حدیث پر امامِ اہلِ سنّت  علیہ رحمۃ ربِّ العزّت  کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت آپ کی عظیم تصنیف “ مُنِیرُ العَین “ ہے اس کتاب کو امامِ اہلِ سنّت  علیہ رحمۃ ربِّ العزّت  نے فقط 29 سال کی عمر میں تحریر فرمایا۔ جب اس کا عربی ترجمہ ہوا اور مصر و شام کے علما نے اس کتاب کو دیکھا تو حد درجہ متأثر ہوئے اور گراں قدر تأثرات اس پر تحریر فرمائے۔ (ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور ، ص 12 ، نومبر 2014ملخصاً)

آپ کے شاگردِ رشید ، ملِکُ العلماحضرتِ علامہ سیّد ظفر الدّین بہاری  علیہ رحمۃ اللہ البارِی  نے فِقہ حنفی کے مسائل کے دلائل پر ایک کتاب صحیحُ البِہَاری تحریر فرمائی ، جس کی صرف ایک جلد کم و بیش 10ہزار احادیثِ کریمہ پر مشتمل ہے ، اس  کے مقدمہ میں امامِ اہلِ سنّت  علیہ رحمۃ ربِّ العزّت  سے حدیث کے جو فوائد آپ نے حاصل کئے تھے انہیں ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں : وَهٰذَا نَهْرٌ أَصْغَرُ مِنَ الْبَحْرِ الاَكْبَرِ مِنْ بِحَارِ عُلُوْمِ سَيِّدِيْ وَشَيْخِيْ نَفَعْنَا بِبَرَكَاتِهٖ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ یعنی یہ میرے سردار و شیخ کے علوم کے سمندروں سے ایک بڑے سمندر کی چھوٹی سی نہر ہے ، اللہ  عَزَّوَجَلَّ  ہمیں ان کی برکتیں دنیا اور آخرت میں عطا فرمائے۔

100سے زائد کتب کے مصنف ، عظیم محدّث حضرتِ علّامہ حافظ سیّد عبدُالحی الکتانی  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  نے اپنی معروف تصنیف فھرسُ الفھارس میں امامِ اہلِ سنّت  علیہ رحمۃ ربِّ العزّت  کے یہ القابات ذکر کئے ہیں : الفقيهُ المُسْنَدُ الصوفي الشَّهاب (فہرس الفہارس والأثبات ، 1 / 86) ان القابات سے حافظ کتانی  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ  کے نزدیک امامِ اہلِ سنّت  علیہ رحمۃ ربِّ العزّت  کا بلند مقام واضح ہوتا ہے کہ امامِ اہلِ سنّت فقہ و حدیث کے بھی امام ہیں اور صاحبِ عمل صوفی بھی ہیں۔

انتہائی اختصار کے ساتھ کچھ باتیں ذکر کی گئی ہیں ورنہ امامِ اہلِ سنّت  علیہ رحمۃ ربِّ العزّت  کا فنِ حدیث میں مقام ومہارت بیان کرنے کے لئے ضخیم جلدیں درکار ہیں۔


Share

فن حدیث میں امام اہل سنت کا مقام علما کی نظر میں / عظیم علمی شاہکار( فتاویٰ رضویہ)

فتاویٰ رضویہ“اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ذہانت  و فَطانت ، تَبَحُّرِ عِلمی اور تَفَقُّہ فی الدین کا  ایک عظیمُ  الشان اور فقیدُ المثال  شاہکا ر  ہے۔ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اب تک   فقہِ حنفی کے  فتاویٰ جات کاایسا جامع ، مَبْسوط، مُدَلَّل اور مُبْرَہَن کوئی دوسرا   مجموعہ  مُرَّتب نہ ہوسکا۔ جہازی سائز کی 12جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ شریف جو اَب تحقیق و تخریج اور عربی  وفارسی عبارتوں کے ترجمہ کے بعد جدید طَرزِ طَبع سے مُزیّن ہوکر 33 مُخَرَّجَہ جلدوں تک پہنچ گیا ہے، جسے ہم بلا مبالغہ اردو زبان میں دنیا کا ضَخیم ترین فتاویٰ کہہ سکتے ہیں۔فتاویٰ رضویہ کا تعارف:اس بے مثال علمی شاہکار کا نام امام ِاہلِ سنت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت نے ”اَلْعَطَایَا النَّبَوِیَّہ فِی الْفَتَاوی الرضَوِیَّہ“ رکھا ہے، جو جدید تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع ہونے کے بعد تقریباً 22000 صفحات، 6847 سوالات و جوابات اور 206 تحقیقی رسائل پر مشتمل ہے۔  جبکہ ہزاروں مسائل ضِمناً زیرِ بحث آئے ہیں۔( فتاویٰ رضویہ اشاریہ،ص3)فتاویٰ رضویہ کا مقام:فتاویٰ رضویہ کے بلند علمی مقام کا  اندازہ لگانے کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ اس  میں احکامِ شریعت دریافت کرنے والے صرف  عوامُ الناس ہی نہیں بلکہ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کے بَحرِ عِلْم سے پیاس بجھانے والوں میں ملک و بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے وقت کے بڑے بڑے عُلَمَا و فُضَلا، مُفتیانِ عِظام، مُحَدِّثِیْنِ کرام، مشاہیرِ مُصنّفین و مؤرِّخین، اصحابِ ِطریقت و معرفت، دانشور و وکَلا حتّٰی کہ مخالفین بھی شامل ہیں، ان تِشنگانِ عِلْم کی تعداد ایک تحقیق کے مطابق 541  بنتی ہے جنہوں نے پیچیدہ مسائل میں غور و خوض کرنے کے بعد ان مسائل کے کافی و شافی حل کے لئے امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے رابطہ کیا اور اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت نے انہیں تحقیقی اور تسلِّی بخش جوابات عنایت فرمائے ۔اگر فتاویٰ رضویہ غیرمخرجہ کی 9 جلدوں میں دریافت کئے گئے اِستفتا کی تعداد کو دیکھا جائے تو وہ 4095 ہے، جس میں سے 3034 عوامُ الناس کے اِستفتا ہیں جبکہ 1061اِستفتا علمائے کرام نے بھیجے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت  سے سوال کرنے والوں میں ایک چوتھائی تعداد صرف علما و دانشوروں کی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج1،ص16)فتاویٰ رضویہ کی نمایاں خصوصیات: فتاویٰ رضویہ علوم و فنون کے جواہر پاروں سے مُزیَّن ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی نظیر خطبۂ فتاویٰ رضویہ ہے جس میں ائمۂ مجتہدین و کُتُب ِ فِقہ کے تقریباً 90 اسمائے گرامی کو صَنْعَتِ بَراعتِ اِستہلال استعمال کرتے ہوئے اس انداز سے ایک لَڑی میں پرو دیا ہے کہ اللہ عَزّوَجَلّ کی حمد و ثنا بھی ہوگئی اور ان اسمائے مقدسہ سے تبرک بھی حاصل ہوگیا۔ اس خطبے سے مصنف کی فَقاہت، قادرُ الکلامی اوروُسعتِ علمی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس میں موجودفتاویٰ جات قراٰن و حدیث، نُصوصِ فقہیہ واقوالِ سَلف و خَلف سے بھرپورنظر آتے ہیں اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:(1)تیمم کی تعریف و ماہیتِ شرعیہ کا  ایسا علمی و تحقیقی مسئلہ اس فتاویٰ کی زینت ہے کہ دورِ حاضر کے بلند پایہ محققین بھی ورطۂ حیرت میں پڑ جاتےہیں،  پہلے  تیمم کی 7 تعریفات ذکر کی گئیں، پھر پانی سے عِجز کی ترتیب وار 175 صورتیں بیان فرمائیں،جو دیگر کُتُبِ فقہ  میں 40 یا 50سے زائد نہ ملیں گی نیزجن چیزوں سے تیمم کیا جاسکتا ہے پہلے کُتُبِ فقہ سے تقریباً 74 اشیا کے نام باحوالہ ذکر کرنے کے بعد مصنف ِ فتویٰ نے اپنی خُداداد فَقاہت  کی بدولت اس میں 107 کاخود سے اضافہ فرمایا۔ جن سے تیمم جائز نہیں کُتُبِ فقہ سے 58 کاذکر بحوالہ فرمانے کے بعد اپنے تَفَقُّہ سے اس میں72 کا اضافہ فرمایا، جملہ اشیا کا شمار کسی قابلِ اعتماد فقہی کتاب میں ملنا تو درکَنار ان کا نصف بھی  ایک ساتھ نہ مل  پائے گا۔(2)سجدۂ تعظیمی  کی حُرمت پرجب مصنفِ فتویٰ نے قلم کو جُنبش دی تو 40 احادیث  اور ڈیڑھ سو نُصُوص سے اپنے دعوے کو ثابت کیا۔(فتاویٰ رضویہ،ج22،ص251) (3)دلائل و اِستشہادات کی کثرت کی جو بہار فتاویٰ رضویہ میں ہے کسی اور فتاویٰ میں اس کا عُشرِعَشِیر بھی نہیں ملتا   جس کی ایک جھلک ”لَمْعَۃُ الضُّحٰی فیِ اِعْفَآءِ اللُّحٰی“ جیسا تحقیقی فتویٰ ہے جو ایک مُٹھی داڑھی کے وجوب پر تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں زوائد کے علاوہ اصلِ مقصد میں 18 آیتوں 72حدیثوں،60 ارشاداتِ علماء  وغیرہ کل ڈیڑھ سو نُصُوص  کے ذریعے باطل کااِبطال  اور  حق کا اِحقاق کیا گیا۔ (فتاویٰ رضویہ،ج22،ص607) (4)نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے افضلُ الْمُرسَلِین ہونے پر ایک عالمِ دین نے سوال کیا کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی افضلیت پر صراحۃً کوئی آیتِ قرآنی نہیں ملتی تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہنے  10 آیاتِ کریمہ اور 100 احادیثِ عظیمہ سے حق کو اُجاگر فرمایا۔(فتاویٰ رضویہ،ج  30،ص129) (5)نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام پاک پر انگوٹھے چومنے کے مسئلے پر ”مُنِیْرُ الْعَیْن  فِیْ حُکْمِ تَقْبِیْلِ اْلاِبْہَامَیْن“ کے نام سے  تقریبا 200 صفحات  پر مشتمل یہ فتوی بھی فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہے جو30 افادات اور 12 فائدوں پر مشتمل ہے اور ہر فائدے میں ایک اُصولِ حدیث  ذکر کرنے کے بعد اس کے اِثبات میں دلائل کا انبار لگا دیا ،حدیثِ ضعیف کے قبول و رَد پر علمِ  اصولِ حدیث کے قواعد کی روشنی میں ایساجامع اور مُفَصّل کلام کیا کہ دیکھنے والے اَنگُشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ،5ج،ص429) (6)سوال کے ہر پہلو پر تَنْقِیح بھی فتاویٰ رضویہ کا خاصّہ ہے  جیسا کہ ایک سوال طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے کے متعلِق پوچھا گیا تو جواب میں   اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت نے فرمایا: جس طرح سوال کیا گیا ہے اور جو معاملہ کی نوعیت ہے اس لحاظ سے تو اس سوال کے 58 جواب ہوسکتے ہیں کیوں کہ اس کی 58 شکلیں بنتی ہیں نہ جانے سوال کرنے والے کو کون سی شکل درپیش ہو۔ لہٰذا تمام ممکنہ صورتوں کا جواب بھی مَرحمت فرمایا اور کہیں سائل 58 شکلوں کے اس جواب کو دیکھ کر پریشان نہ ہو جائے اور اسے فیصلہ کرنا دشوار نہ ہو جائے ان سب صورتوں کا حکم چار اصل کلّی سے نکال کر اس جواب کو آسان بھی فرما دیا۔( فتاویٰ رضویہ،ج 12،ص436،ملخصاً)

یہ صرف فقہی فتاویٰ جات کی چند اَمْثِلہ ہیں  اب ایک سائنسی تحقیق کا جلوہ بھی ملاحظہ فرمائیے چنانچہ(7)امریکی  مُنَجِّم پروفیسر البرٹ نے 1338ھ مطابق17 دسمبر 1919ء کو ایک ہولناک پیش گوئی کی  جس میں سورج میں سوراخ ہونے اور زمین کی تباہی کے متعلق  اِنکشافات تھے، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے آیاتِ قرآنیہ اور 17دلائلِ عقلیہ کے ذریعے اس کی  پیش گوئی  کو پارہ پارہ  کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:بیانِ منجم پر اور مواخذات بھی ہیں مگر17 دسمبر کے لئے17 پر ہی اکتفا کریں۔(فتاویٰ رضویہ،ج27،ص241تا 242) اور پھر سب نے دیکھا کہ اس منجم کی پیش گوئی جھوٹی اور امام اہلِ سنت کا کلام سچا ثابت ہوا۔(8)فتاویٰ رضویہ کا  15صفحات پر مشتمل مختصر ترین رسالہ بنام ”اَلتَّحْبِیْر بِبَابِ التَّدْبِیْر“ بھی 21آیات قرآنی، 40احادیث نبوی اورکثیر نصوص و جزئیات سے معمور ہے۔اتنا تحریر کرنے کے بعد صاحبِ فتویٰ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کی شان دیکھئے آپ فرماتے ہیں: فقیر غَفِرَلَہُ اللہُ تعالٰی دعویٰ کرتا ہے کہ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اگر محنت کی جائے تو ، دس ہزار سے زائد آیات و احادیث اس پر جمع ہو سکتی ہیں۔(9)علم ِ کلام ، علمِ حدیث و اصولِ حدیث، فِقہ کے علاوہ طِبّ، نُجوم، تاریخ، ہیئت، فلسفہ اور اس جیسے کئی علومِ جدیدہ قدیمہ کے متعلق فتاویٰ جات و مسائل بھی فتاویٰ رضویہ کا حصہ ہیں۔(10) فتاویٰ رضویہ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس  میں موجود ہر رسالہ کا  نام  تاریخی  ہے جس سے اس رسالہ  کا  سنِ تحریر   نکالا جا سکتا ہے ۔

کیا بیان کیجئے اور کیا چھوڑئے !یہ تو  اس عظیم و بے نظیر شاہکار کے بَحرِ بے کَراں میں سے چند  قیمتی موتی بطورِ نمونہ ذکر کئے گئے ہیں ورنہ اس کی گہرائیوں میں سے  گوہرِ نایاب نکالنے کے  لئے محققین اب تک اس سمندر میں غوطہ زَن ہیں  اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا ۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ


Share