مارکیٹ ریٹ سے مہنگی شے بیچنا/ سودے میں لگائی گئی ایک غلط شرط

مارکیٹ ریٹ سے مہنگی شے بیچنا

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص بغیر دھوکا دہی کے کسی شخص کو مارکیٹ ریٹ(Market rate) سے تین گنا زیادہ مہنگی چیز بیچ دیتا ہے تو کیا معلوم ہونے پر خریدار کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اُس سودے کو کینسل(Cancel) کردے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:پوچھی گئی صورت میں اگر بیچنے والے نے مارکیٹ ریٹ سے تین گنا زیادہ بیچنے میں کسی قسم کا دھوکا نہیں دیا تو باہمی رضامندی سے منعقد ہونے والے اِس سودے کو اب خریدار کینسل نہیں کرسکتا ہاں اگر دھوکے کی صورت پائی گئی تو پھر خریدار اِس سودے کو کینسل کراسکتا ہے۔ اِس صورت میں دھوکے کی مثال فُقَہَائے کرام یہ بیان فرماتے ہیں مثلاً بیچنے والا خریدار سے کہے میرے اِس سامان کی اِتنی قیمت ہے یا میرا یہ سامان اتنی قیمت کے مُسَاوی ہے بیچنے والے کی اس بات پر اِعتبار کرتے ہوئے خریدار وہ چیز خرید لے پھر اسے عِلْم ہو کہ بائع(بیچنے والے) کی بات درست نہیں ہے اور اِس چیز کی قیمت کم ہے تو بیچنے والے کے اِس دھوکے کی وجہ سے خریدار وہ چیز واپس کرسکتا ہے جب کہ کسی اور وجہ سے شرعاً واپسی کا حق ختم نہ ہوگیا ہو۔

تبیینُ الحقائق میں ہے: جب بائع نے مشتری (خریدنے والے) سے کہا: میرے سامان کی قیمت اتنی ہے یا کہا:میرا سامان اتنے کے برابر ہے خریدار نے اِس پر بِنا کرتے ہوئے خرید لیا پھر اِس کا خلاف ظاہر ہوا تو بائع کے خریدار کو دھوکا دینے کے سَبَب خریدار کے لئے اِس بیع کو رَدْ کرنے کا اِختیار ہوگا اور اگر ایسا کچھ نہیں کہا تو اب بیع رد کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ بعض فقہاء نے فرمایا کہ بیع جس طرح بھی ہو رَد نہیں کرسکتے مگر صحیح یہ ہے کہ اگر دھوکا ہواہے تو رد کا حکم دیا جائے گا ورنہ رد کا حکم نہیں۔(تبیینُ الحقائق،ج4،ص436)

صَدْرُالشَّریعَہ بَدْرُالطَّریقَہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی اِرشاد فرماتے ہیں: کوئی چیز غَبنِ فاحِش کے ساتھ خریدی ہے اُس کی دو صورتیں ہیں دھوکا دیکر نقصان پُہنچایا ہے یا نہیں اگر غَبنِ فاحِش کے ساتھ دھوکا بھی ہے تو واپس کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ غَبنِ فاحِش کا یہ مطلب ہے کہ اتنا ٹوٹا (گھاٹا) ہے جو مُقَوّمِیْن (قیمت لگانے والوں) کے اندازہ سے باہر ہو مثلاً ایک چیز دَس روپے میں خریدی کوئی اُس کی قیمت پانچ بتاتا ہے کوئی چھ کوئی سات تو یہ غَبنِ فاحش ہے اور اگر اُس کی قیمت کوئی آٹھ(8) بتاتا کوئی نو(9) کوئی دس(10) تو غبنِ یسیر ہوتاہے۔ دھوکے کی تین صورتیں ہیں کبھی بائع مشتری کو دھوکا دیتا ہے پانچ کی چیز دس میں بیچ دیتا ہے اور کبھی مشتری بائع کو کہ دس کی چیز پانچ میں خرید لیتا ہے کبھی دَلّال (سودا کرانے والا) دھوکا دیتا ہے اِن تینوں صورتوں میں جس کو غبنِ فاحش کے ساتھ نقصان پہنچا ہے واپس کرسکتا ہے اور اگر اجنبی شخص نے دھوکا دیا ہو تو واپس نہیں کرسکتا۔(بہارشریعت،ج2،ص691)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

سودے میں لگائی گئی ایک غلط شرط

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل گاڑیوں کی خرید و فروخت میں یہ طریقہ بھی رائِج ہوگیا ہے کہ مثلاً ایک لاکھ روپے کا رِکشا خرید کر آگے ڈیڑھ لاکھ روپے میں قسطوں پر فروخت کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ بقیہ رقم گاڑی پر ہے گاڑی چلتی رہے گی اور قسطیں بھی ادا ہوتی رہیں گی لیکن قسط مکمل ہونے سے پہلے اگر گاڑی کسی حادثہ کا شکار ہوگئی، جل گئی یا چوری ہوگئی اس صورت میں بقیہ قسطیں ساقط ہوجائیں گی یعنی بائع(بیچنے والے) کو خریدار سے بقیہ رقم کے مطالبے کا حق نہ ہوگا کیا یہ صورت جائز ہے؟ اس بارے میں راہنمائی فرما دیں؟۔

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:سوال میں بیان کی گئی صورت عَقدِ فاسِد اور ناجائز ہے۔ خرید و فروخت میں اَصْل یہ ہے کہ جب کوئی بھی چیز کسی مُعاوضہ یا قیمت کے بدلے بیچی جاتی ہے تو سودا ہوتے ہی خریدار مال کا مالک ہوجاتا ہے اور بیچنے والا مُعاوضہ یا ثَمَن یعنی قیمت کا مستحق ہوجاتا ہے اور اُدھار کا سودا ہو تو مال خریدنے والے کے ذِمَّہ قیمت کی اَدَائیگی دَین(یعنی قرض) ہوتی ہے جو کہ اُس پر   واجبُ الاَدَا رہے گی۔

پوچھی گئی صورت میں سودے میں ایسی شرط شامل ہے جو خریدار کے فائدے پر مشتمل ہے اور سودا ایسی شرط کا تقاضا نہیں کرتا کیوں کہ سودے کا تقاضا یہ ہے کہ جو قیمت طے ہوئی ہے وہ ہی ادا کی جائے لہٰذا ایسی شرط کی موجودگی میں یہ سودا عَقْدِفاسِد اور ناجائز ہے۔

النھر الفائق میں ہے: یعنی ہر شرط بیع کو فاسد نہیں کرتی بلکہ ضروری ہے کہ وہ شرط ایسی ہو جس کا عَقْد تقاضا نہ کرے اور نہ ہی وہ عقد کے مناسب ہو، نہ ہی لوگوں کے درمیان مُتَعَارَف ہو اور اُس میں متعاقدین میں کسی ایک یا مبیع کا نفع ہو جب کہ وہ اس کے اہل ہوں۔(النھر الفائق،ج3،ص434)

نفع کی وضاحت کرتے ہوئے رَدُّالمحتار میں ہے:اَلْمُرَادُ بِالنَّفْعِ مَا شُرِطَ مِنْ اَحَدِ الْعَاقِدَيْنِ عَلىَ الْآخَرِ یعنی نفع سے مراد وہ شرط ہے جو فریقین میں سے کوئی ایک دوسرے پر نافذ کر دے۔(ردالمحتار،ج 7،ص284)

بیع فاسِد کے متعلق رَدُّالمحتار میں ہے:اَنَّہُ مَعْصِیَّۃٌ یَجِبُِ رَفْعُھَا یعنی  بیع فاسِد گناہ ہے اور اِس کو ختم کرنا واجِب ہے۔(رَدُّالمحتار،ج 7،ص232)

صَدْرُالشَّریعَہ بَدْرُالطَّریقَہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی اِرشاد فرماتے ہیں:جو شرط مُقْتَضَائے عَقْد کے خلاف ہو اور اُس میں بائِع یا مُشْتَری یا خود مبیع کا فائدہ ہو (جب کہ مبیع اہلِ اِستحقاق سے ہو) وہ بیع کو فاسد کردیتی ہے۔(بہار شریعت،ج 2،ص702)

بَہارِ شریعَت میں ہے:جس بیع میں مبیع یا ثمن مجہول ہے وہ بیع فاسد ہے۔(بہار شریعت،ج 2،ص711)

بیع فاسد کا حکم بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: پس بائع و مشتری دونوں گُناہ گار ہوئے اور دونوں پر بحکمِ شرع واجب ہے کہ اپنی اِس بیع کو فسخ کریں۔(فتاوی رضویہ،ج 17،ص153)

واضح رہے کہ بطورِ رحم و شفقت مال بیچنے والے کو اِس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی مشکل کی بنا پر سودے کی بقیہ قسطیں یا کُل رقم چاہے تو معاف کردے لیکن یہ ایک اختیاری معاملہ ہے وہ چاہے تو معاف کرے چاہے نہ کرے لیکن اِس اختیار کو سودے کے معاہدہ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کہ ایسا ہونے پر اَوَّل تو یہ اختیار لُزوم کی شکل اختیار کر گیا، دُوُم یہ کہ سودا ایسی شرط کا تقاضا نہیں کرتا۔ لہٰذا یہ دونوں الگ الگ صورتیں ہیں ان کے فرق کا لحاظ واجب ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 


Share

مارکیٹ ریٹ سے مہنگی شے بیچنا/ سودے میں لگائی گئی ایک غلط شرط

اِنسان کوضَروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لئے کمانے اور آمدنی(Earning) کے  مختلف ذَرائع اِختیار کرنے پڑتے ہیں۔ان میں سے ایک اَہم ذَریعہ تجارت ہے۔ تجارت میں ہر شخص کی یہ  تمنّا ہوتی ہے کہ مجھے کامیابی مل جائے مگر یہ کامیابی فوراً  حاصل نہیں ہو جاتی بلکہ  اس کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے اور مِعیار بنانا پڑتا ہے  تب جا کر کامیابی (Success)حاصل ہوتی ہے۔

تجارت میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے گاہک (Customer) بڑھانے کی ضَرورت ہوتی ہے، جتنے زیادہ گاہک ہوں گے اتنی ہی زیادہ اَشیا  فروخت ہوں گی اور اسی قدر نفع بھی بڑھتا جائے گا۔ اِن سب چیزوں کا دارو مدار جہاں تاجِر کی خوش اَخلاقی اور  دیانتداری پر ہے وہیں مالِ تجارت کے عُمدہ اور مِعیاری ہونے پر بھی ہے۔ جب تاجِر اپنے گاہکوں کے ساتھ خوش اَخلاقی سے پیش آئے گا، دیانتداری سے کام لے گا اور مالِ تجارت بھی عُمدہ اور مِعیاری رکھے گا تو وہ گاہک دوبارہ آئیں گے، دوسروں کو بھی اس سے سامان خریدنے کی ترغیب دیں گے۔اس کے برعکس تاجِر کی بداَخلاقی، بد دیانتی اور مالِ تجارت کے غیر مِعیاری ہونے کی وجہ سے جو ایک بار  دھوکا کھائے گا وہ  دوبارہ نہ آئے گا اور نہ ہی  کسی اور  کو آنے کا مشورہ دے گا۔ حدیثِ پاک میں ہے: مومن ایک سُوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔(بخاری،ج4،ص135، حدیث:6133)

گاہگ کو عیب بتادینا چاہئے: اگر مالِ تجارت میں کوئی چیز غیر مِعیاری یا عیب والی ہو تو گاہک کے سامنے اس کا عیب وغیرہ  بیان کر دینا چاہئے کیونکہ اگر اسے بعد میں عیب کا پتا چلے گاتو اسے پریشانی ہوگی۔(یادرہے کہ خریدار(Purchaser) عیب کی وجہ سے خریدی ہوئی چیز کو چند شرائط کے ساتھ واپس کرنے کا حق رکھتاہے،اس کی تفصیلات جاننے کےلئے بہارِشریعت، جلد2 صفحہ673تا674 پڑھ لیجئے) یہ چارے کو پاؤں سے اُلٹ دیتی ہے (حکایت): ہمارے اَسلاف (بزرگانِ دین)کوئی چیز فروخت کرتے وقت اُس میں موجود  عیب کو گاہک پر ظاہر کردیا کرتے تھے جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد بن سیرین عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْمُبِیْن نے ایک بکری بیچتے وقت خریدار سے کہا: میں اِس میں پائے جانے والے عیب کے مُعاملہ میں تجھ سے بَری ہوں اور وہ عیب یہ ہے کہ یہ چارے کو  پاؤں سے اُلٹ دیتی ہے۔(احیا ء العلوم،ج2،ص99)

آجکل جب کوئی چیز بازار میں چل نکلتی ہے تو پھر اس کے مِعیار(Quality) پر توجُّہ کم اور اس کی مقدار(Quantity) بڑھانے اور خوب کمانے پر دھیان زیادہ دیا جاتاہے،ایسا نہیں  کرنا  چاہئے کہ اس میں  بظاہر فائدہ نظر آ رہا ہوتا  ہے کہ سَستی اور غیر مِعیاری چیز مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہوتی ہے  مگر آہستہ آہستہ کاروبار کا مِعیار گرتا چلا جاتا ہے، بالآخر نام رہ جاتا ہے دَھندا کچھ نہیں ہوتا اور لوگ”اُونچی دُکان پھیکا پکوان“ کہتے سُنائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سمجھدار کاروباری حضرات کبھی بھی  ایسا نہیں کرتے  بلکہ وہ اپنی  چیزوں کا مِعیار پہلے سے مَزید  اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ گاہک بنانے میں وقت لگتا ہے جبکہ گنوانے میں دیر نہیں لگتی ۔ برسوں کا بنا  بنایا  کھیل لمحوں میں ختم ہو سکتا ہے  لہٰذا ہر تاجِر کو چاہئے کہ دیانتداری سے کام لے اور اپنے مالِ تجارت کے مِعیار کو اچھا رکھنے کی کوشش کرے ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ  ہمیں شریعت و سنَّت کے مطابق کمانے، کھانے اور مُعامَلات نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم 


Share

مارکیٹ ریٹ سے مہنگی شے بیچنا/ سودے میں لگائی گئی ایک غلط شرط

اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ذریعۂ آمدن

اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہل سنّت، اِمام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن کے والدِ ماجد رَئِیْسُ الْمُتَکَلِّمِین حضرتِ علّامہ مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ الحنَّان وقت کے بہت بڑے مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زمیندار بھی تھے، جب تک آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حیات رہے اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کی تمام ضروریات کا خود ہی انتظام فرما دیا کرتے تھے مگر جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا وصال ہوگیا تو بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کی وجہ سے  زمینوں کی دیکھ بھال اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی وصول کرنے  کا کام اَعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کے سپردہوگیا، آپ نے ایک دو فصلوں تک یا ایک دو سال تک  آمدنی وصول کی لیکن چونکہ یہ کام آپ کے ذوق کے خلاف تھا اس لئے اپنی والدہ صاحبہ کی اجازت سے  اسے اپنے منجھلے بھائی شَہنشاہِ سُخن حضرتِ مولانا حسن رضا خان علیہ رحمۃ المنَّان کے سپرد فرما دیا۔ وہ زمینوں کی آمدنی سے اعلیٰ حضرت  علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کے گھر میں ضروریات کی تمام اشیا فراہم کرتے اور گھر کے تمام انتظامات سنبھالتے تھے جبکہ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت بغیر کسی مالی اجرت کے فتاویٰ و تصانیف میں مُنہَمِک اور دینِ اسلام کی خدمت میں مشغول رہتے۔(ماخوذ اَز سیرتِ اعلیٰ حضرت،ص 34، 46)


Share

Articles

Comments


Security Code