فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ وَلَا هَامَةَ یعنی نہ مرض کا اڑکر لگنا ہے نہ صفر کوئی چیز ہے نہ اُلّو کوئی چیز ہے۔(بخاری،ج4،ص26،حدیث:5717)
”لَاصَفَرَ“ یعنی صفر کوئی چیز نہیں ہے اس کی شرح میں مختلف اقوال ہیں ۔بکثرت شارحین نے یہ قول بھی بیان کیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے لوگوں میں یہ وہم عام تھا کہ صفر کے مہینے میں بلائیں اترتی ہیں،صفر بلاؤں والا مہینہ ہے تو ’’ لَاصَفَرَ یعنی صفر کوئی چیز نہیں‘‘ فرماکر ان توہُّمات (وہمی باتوں) کا رد فرما دیا ۔
عمدۃ القاری میں ہے:اہلِ عرب کا عقیدہ تھا کہ پیٹ میں ایک سانپ ہوتا ہے جسے ”صفر“ کہا جاتا ہے جب انسان کو بھوک لگتی ہے تب وہ پیدا ہوتا ہے اور انسان کو تکلیف دیتا ہے اور بیمار کر دیتا ہے۔ اسلام نے اس عقیدے کو باطل فرمادیا اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وقت کو مؤخر کرنا ہے کہ اہلِ عرب زمانہ ٔجاہلیت میں محرم کے مہینے کو صفر تک مؤخر (آگے) کرتے اور صفر کو حرمت والا مہینہ بنا دیتےتھے ۔ اسلام نے اس چیز کو باطل فرما دیا۔(عمدۃ القاری،ج14،ص693، تحت الحدیث: 5707)
اشعۃاللمعات میں امام نووی کے حوالے سے مذکور ہے کہ یہ پیٹ کے کیڑے ہوتے ہیں جو بھوک کے وقت کاٹتے ہیں، بعض اوقات انسان کا جسم دکھنے لگتا ہے اور وہ ہلاک ہوجاتا ہے، حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ یہ سب باطل ہے ۔ ( اشعۃ اللمعات،ج3،ص664)
اشعۃ اللمعات میں لاصفر کے تحت ہے: بعض شارحین کے نزدیک مشہور مہینہ مراد ہے جو محرم کے بعد آتا ہے عوام الناس اسے بلاؤں ، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وقت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطل ہے ، اس کی کچھ اصلیت نہیں ہے۔(اشعۃ اللمعات،ج3،ص663)
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نزہۃ القاری میں فرماتے ہیں: عرب والوں کا دستور تھا کہ لڑنے کے لئے کبھی محرم کو صفر سے بدل دیتے ۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ پیٹ کی بیماری ہے جیسا کہ امام بخاری آگے چل کر باب باندھیں گے بَابُ لَاصَفَرَ وَ ھُوَ دَاءٌ یَاْخُذُ الْبَطنَ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں اس کی نفی فرمائی ۔ ( نزہۃ القاری ،ج8،ص254)
مراٰۃ المناجیح میں ہے کہ بعض لوگ صفر کے آخری چہار شنبہ(یعنی بدھ) کو خوشیاں مناتے ہیں کہ منحوس شہر(یعنی مہینا) چل دیا یہ باطل ہے۔(مراٰۃ المناجیح ،ج6،ص257)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:اس جماعت کے متعلق پوچھا گیا جو صفر میں سفر نہیں کرتے نہ کوئی کام شروع کرتے ہیں جیسے نکاح و دخول اور اس نظریہ پر حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان بطورِ دلیل لاتے ہیں کہ جو صفر جانے کی خوشخبری مجھے دے اسے میں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔کیا یہ باتیں صحیح ہیں؟کیا صفر کے مہینے میں نحوست ہے؟ کیا صفر میں کام(شادی وغیرہ) کرنے کی ممانعت ہے؟(جواب) صفر کے مہینے کے متعلق جو کچھ کہا جاتا ہے یہ تمام باتیں عرب کہا کرتے تھے۔ صفر کے متعلق جتنی اس قسم کی احادیث حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف منسوب ہیں وہ سب جھوٹی ہیں جیسا کہ جواہر الفتاو یٰ میں ہے۔(فتاویٰ ہندیہ،ج5،ص380 ملتقطاً)
Comments