ایک دوسرے کی بھلائی چاہنااورخیرخواہی کرنا دینِ اسلام کی تعلیمات کا سنہری باب ہے۔ حضور سرورِ کائنات صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے اس کی خُوب ترغیب اِرشاد فرمائی ہے۔ حضرتِ سیّدنا تَمِیم داری رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا:دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی: کس کی؟ فرمایا: اللہ کی، اُس کی کتاب، اُس کے رسول اور مسلمانوں کے اماموں اور عوام کی۔ (مسلم،ص51، حدیث:196) عام لوگوں سے خیرخواہی: دنیا اورآخرت کے معاملات میں خیر کی طرف راہنمائی کرنا، مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کرنا، نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں اُن کی مدد کرنا، ان کے عیوب کی پردہ پوشی کرنا، ان کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند ہو عام لوگوں سے خیرخواہی ہے۔(عمدۃُ القاری،ج1،ص470،تحت الحدیث: 57) خیرخواہی کی صورتیں ایک حدیثِ پاک میں کچھ ایسے کام بیان کئے گئے ہیں جو فی زمانہ مسلمان کی خیرخواہی کی بہترین صورتیں ہوسکتی ہیں چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم ہے: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں:(1)جب اس سے ملاقات ہو تو سلام کرے(2)جب دعوت دے تو قبول کرے (3)جب وہ مشورہ مانگے تو اچھا مشورہ دے(4)جب اسے چھینک آئے اور وہاللہ کی حمد کرے تو اسے یَرْحَمُک َاللہ کہہ کر دُعا دے (5)جب بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے (6)انتقال ہو جائے تو وہاں موجود رہے۔(مسنداحمد،ج3،ص306، حدیث: 8854) یقیناً اگر ہم خیرخواہی کی یہ صورتیں اپنا لیں تو ہماری بگڑی بھی سنور سکتی ہے۔ مگر افسوس! کہ رفتہ رفتہ ہم اس سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ حالانکہ خیرخواہی دین کا بنیادی ستون ہے، اس کی اہمیت کے پیشِ نظر ظالم سے بھی خیرخواہی کا حکم ہے۔ ظالم و مظلوم سے خیر خواہی:فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم ہے: بندے کو اپنے ظالم یا مظلوم بھائی کی مدد کرنی چاہئے، اگر وہ ظالم ہو تو اسے روکے، یہی اس کی مدد ہے اور اگر وہ مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے۔(مسلم، ص1070، حدیث: 6582) ہمارے اَسلاف میں خیرخواہی کا ایسا جذبہ تھا کہ خود مصیبت بھی برداشت کرتے اور جن کی طرف سے پریشانی آتی اُن کی میدانِ محشرمیں پریشانی کا احساس کر کے غم زدہ بھی ہوجاتے۔حکایت: حضرت علی بن فُضیل رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ کے دورانِ طواف دینار چوری ہوگئے، ان کے والد نے انہیں روتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: دیناروں پر روتے ہو؟ جواب دیا: خداکی قسم !ایسا نہیں ہے۔ مجھے اس بےچارے پر رونا آرہا ہے کہ قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گا تو اس کے پاس کوئی عذر نہ ہوگا۔ (احیاءالعلوم،ج4،ص350)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اب بھی اگرخیر خواہی کی مُشکبار ہوا ہمارے معاشرے میں چل پڑے توقتل و غارت گری، دھوکا دہی، بدنیّتی جیسےہزاروں ناسور اپنی موت آپ مرجائیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کا خیرخواہ بنائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دسترخوان سے ہاتھ پونچھنا خلافِ سنّت ہے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن ایک دعوت میں تشریف لے گئے، وہاں ایک صاحب نے کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے اور دسترخوان سے ہاتھ پونچھے، اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کی نظرمبارک پڑ گئی تو فرمایا: دسترخوان صرف کھانے کے لئے ہے، اس سے ہاتھ پونچھنا خلافِ سنّت ہے۔(اکرام امام احمد رضا ،ص96ماخوذاً)
Comments