انسانی جسم سر سے لے کر پاؤں تک بے شمار نعمتوں کا مجموعہ ہے، رنگوں اور مناظرِ قدرت کو دیکھتی آنکھیں، ہرآواز اور آہٹ کو سنتے کان، غم اور خوشی کے جذبات رکھنے والا دل اور لفظوں کے موتی بکھیرتی زبان اَلغَرض ہر نعمت بڑی عظیم ہے۔ یونہی رب عَزَّ وَجَلَّنے ہر انسان کو مختلف خوبیاں عطا فرمائی ہیں لیکن ان سب میں سے افضل خوبی عقل ہے۔(فیض القدیر،ج5،ص566، تحت الحدیث: 7901)
عقل انسان کی ہدایت کا ذریعہ بنتی اور اُسے اچھائی اور برائی میں فرق کرنا سکھاتی ہے۔ آدمی جب تک کوئی بھی نیا قدم اٹھانے یا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی عقل اور فہم وفراست سے کام لیتا ہے کامیاب ہوتا ہے مگر جب وہ اپنے فیصلے عقل کی بجائے کسی جذباتی رَدِّ عمل کی صورت میں کرتا ہے تو اس میں نقصان اُٹھاتا ہےآج کل کئی نوجوان اپنے روز مرَّہ کے معامالات میں خواہ مخواہ جذباتی ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو ذہنی اذیَّت دینے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اس کی ایک فرضی مثال پیش خدمت ہے:جذباتی اسکوٹر سوار:شام کے وقت لوگ دفاتر اور کاروباری معاملات سے فارغ ہوکر گھر واپس لوٹ رہے تھے ایک جگہ ترقیاتی کاموں کی وجہ سے ٹریفک کا دباؤ زیادہ تھا اتنے میں ایک اسکوٹر پر سوار نوجوان بلند آواز سے شہری انتظامیہ کو بُرا بھلا کہنے لگا، پھر کچھ دیر بعد اگلی کار میں سوار شخص کو سخت لہجے میں آگے بڑھنے کا کہنے لگا یہاں تک کہ دونوں میں” تُوتُو مَیں مَیں“ شروع ہوگئی آخر کار ان دونوں کی لڑائی نے کافی دیر تک روڈ بلاک (Block) کئے رکھا۔ جذباتی ملازمین: کئی نوجوانوں کا جذباتی پَن ان کی ملازمت پر بھی بُری طرح اثر اَنداز ہوتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی خلافِ مزاج بات پر تحمل اور برداشت سے کام نہیں لیتے ایک تو جذباتی لوگوں کی ویسے ہی کسی سے نہیں بنتی پھر اگر سیٹھ یا منیجر (Manager) سے ذرا سی بات پر اَن بَن ہوجائے تو اچھی بھلی ملازمت کو لات مار کر چلے جاتے ہیں اور بعد میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ جذباتی اولاد: لڑکپن کی عمر میں عقل پختہ نہیں ہوتی اور حالات و حقائق کا اِدراک بھی بہت کم ہوتا ہے ایسے میں بعض لڑکے والدین کی ڈانٹ ڈپٹ یا کسی غلطی پر سَرزنِش (بُرا بھلا کہنے) سے جذباتی ہوکر گھر چھوڑ دیتے ہیں عموماً یہ لڑکے جرائم پیشہ افراد کے چُنگل میں جا پھنستے ہیں اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔دوستوں اور رشتے داروں سے جدائی: بعض نوجوان جذبات میں آکر دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی بگاڑ لیتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کی رائے کا احترام نہیں کرتےاور اپنی رائے دوسروں پر مسلّط کرنے کی کوشش کرتےہیں، بار بار دوسروں کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کردیتے ہیں۔ یاد رہے! کہ کوئی شخص کتنی ہی بڑی خوبیوں کا مالک کیوں نہ ہو اگر اس کا لہجہ سخت، مزاج گرم اور طبیعت میں جذباتی پن ہو تو لوگ عموماًاس سے مُتَنَفِّر ہوکر دور ہوجاتے ہیں۔لہٰذا اپنے مزاج میں تبدیلی لائیے، خود کو تحمل اور برداشت کا عادی بنائیے، ایسے مسائل پر جلنا کُڑھنا چھوڑ دیجئے جن کا کوئی حل نہیں، اپنی گفتگو میں نرمی پیدا کیجئےکیونکہ بسا اوقات چند میٹھے بول زندگی کی تلخیوں میں شہد سے زیادہ چاشنی گھول دیتے ہیں۔
Comments