
پیغامِ بنتِ عطار
63 نیک اعمال
(نیک عمل نمبر 28)
حدیثِ پاک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار یوں دعا فرمائی:میرے نائبوں پر اللہ پاک کی رحمت ہو۔عرض کی گئی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کے نائب کون لوگ ہیں؟ارشاد فرمایا:وہ جو میری سنت کو زندہ کرتے اور اسے اللہ پاک کے بندوں کو سکھاتے ہیں۔([1])
سنت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ سیّد شریف جرجانی حنفی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:سنت کا لغوی معنی ہے طریقہ، اب چاہے وہ اچھا ہو یا برا۔جبکہ شرعی طور پر سنت اس دینی طریقے کو کہتے ہیں کہ جو فرض و واجب نہ ہو اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس پر عمل کیا ہو اور کبھی کبھی چھوڑ بھی دیا ہو۔اگر ہمیشہ کرنا عبادت کی غرض سے ہو تو اسے سنتِ مُؤکَّدہ کہتے ہیں اور اگر عادت کے طور پر ہو تو اسے سُنّتِ غیر مُؤکَّدہ کہتے ہیں۔ سُنّتِ مُؤکَّدہ پر دین مکمل ہونے کے لئے عمل کیا جاتا ہے اور اس کا چھوڑنا مکروہ یا اِساءت یعنی برا ہوتا ہے۔جبکہ سنّتِ غیر مُؤکَّدہ پر عمل کرنا اچھا ہوتا ہے، ان کے چھوڑنے میں ناپسندیدگی اور اساءت یعنی برائی نہیں ہوتی جیسا کہ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور لباس میں حضور کے طریقے کو اپنانا۔([2])مذکورہ حدیثِ پاک اور اس کے تحت سنت کی تعریف کی روشنی میں اگر امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کی شخصیت کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ آپ کی ذات عشقِ رسول کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی ہے اور آپ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سچے نائب ہیں،کیونکہ آپ نہ صرف خود سنتوں سے محبت کرتے ہیں بلکہ اپنے مریدین، محبین اور تمام مسلمانوں کو بھی سنتیں سکھاتے اور انہیں بھی راہِ سنت اپناتے دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کا واضح ثبوت آپ کے نوکِ قلم سے لکھے گئے سنتوں کی آگاہی و ترغیب پر مشتمل مختلف رسائل میں دیکھا جا سکتا ہے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی 63 نیک اعمال کا رسالہ بھی ہے جس میں آپ نے خواتین کو سنتوں کی جانب راغب کرنے کے لئے بالخصوص سوال نمبر 28 میں ذکر فرمایا ہے:
کیا آج آپ نے کچھ نہ کچھ سنتوں پر عمل کیا؟(مثلاً گھر میں آنے جانے، سونے جاگنے، قبلہ رخ بیٹھنے وغیرہ)
بلا شبہ حقیقی کامیاب زندگی وہی ہے جو حضور کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گزرے اور ایسا کرنے کا حکم خود حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے کہ تم پر میری سنت لازم ہے۔([3])چنانچہ حضور کی سنتوں پر عمل سعادت ہی نہیں، بلکہ دنیا و آخرت کی ڈھیروں بھلائیوں کے حصول کا ذریعہ اور بخشش و نجات کا سبب بھی ہے، جیسا کہ امام شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہِ علیہ نقل فرماتے ہیں:حضرت علی بن حسین بن جَدَّاء عُکْبَری رحمۃ اللہِ علیہ نے حضرت ہِبَۃُ اللہ طبری رحمۃ اللہِ علیہ کو خو اب میں دیکھ کر پوچھا:مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟جواب دیا:اللہ پاک نے میری مغفرت فرما دی۔عرض کی:کس سبب سے؟تو انہوں نے راز دارانہ انداز میں کہا:سنت (پر عمل) کی وجہ سے۔([4])
یقیناً یہ زندگی ہمارے لئے ایک نعمت ہے اور ہمیں زندگی کے اس سفر میں ہر لمحے کوئی نہ کوئی کام کرنا ہوتا ہے، مثلاً کھانا پینا، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا اور سونا جاگنا وغیرہ، لہٰذا اگر ہمارا جینا مرنا اور سونا جاگنا حضور کی سنتوں کے مطابق ہو جائے اور ہم یہ سب کام سنت کے مطابق کریں تو ہمارا ہر کام باعِثِ ثواب و عبادت بن جائے گا اور ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو گا جن کے متعلق حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا ہے:جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔([5])
جو خواتین عشقِ سرکار کی دولت سے مالا مال اور سنتِ مصطفےٰ کی حقیقی معنیٰ میں آئینہ دار ہوں، کامیاب و کامران اور زندگی کی معراج پا جاتی ہیں۔لہٰذا ہمیں بھی اپنے معمولات سنت کے مطابق سر انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم اپنے عشقِ رسول کے دعوے میں سچی ثابت ہوں اور ہمارا ہر عمل کارِ ثواب بن جائے۔
سنت کے مطابق میں ہر اک کام کروں کاش
تُو پیکرِ سنت مجھے اللہ! بنا دے
مذکورہ نیک عمل نمبر 28 میں جن چند کاموں کی سنتوں پر عمل کی ترغیب دلائی گئی ہے، ان کاموں سے متعلق چند سنتوں کا ذکر امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے رسالے 101 مدنی پھول میں فرمایا ہے، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
گھر میں آنے جانے کی سنتیں اور آداب
* گھر سے نکلتے اور داخل ہوتے وقت مخصوص دعائیں پڑھنے کے بعد سلام کیجئے،گھر سے نکلنے کی دعا:بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلتُ عَلَی اللہِ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۔([6])گھر میں داخل ہوتے وقت کی دعا:اَللّٰھُمَّ اِنِّیۤ اَسْئَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَ خَیْرَ الْمَخْرَجِ بِسْمِ اللہِ وَلَجْنَا وَ بِسْمِ اللہِ خَرَجْنَا وَ عَلٰی رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا۔([7])
* گھر میں داخل ہوں تو دعا کے بعد گھر والوں کو سلام کیجئے، پھر بارگاہِ رسالت میں سلام عرض کیجئے، اس کے بعد سورۂ اخلاص شریف پڑھئے۔ان شاء اللہ روزی میں برکت ہو گی اور گھر یلو جھگڑوں سے بچت بھی۔
* اگر ایسے مکان(خواہ اپنے خالی گھر)میں جانا ہو کہ اس میں کوئی نہ ہو تو یہ کہئے:السَّلَام عَلَى النَّبِيّ وَ رَحْمَةُ اللہِ وَ بَرَكَاتُه اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللہِ الصّٰلِحِیْن اَلسَّلامُ عَلٰى اَهْلِ الْبَيْتِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وبَرَكَاتُه۔([8])
* کسی کے گھر میں داخل ہونا چاہیں تو پہلے اجازت طلب کیجئے، اگر اجازت نہ ملے تو بخوشی لوٹ جائیے؛ ہو سکتا ہے کسی مجبوری کے تحت صاحبِ خانہ نے اجازت نہ دی ہو!
* جب کسی کے دروازے پر دستک دیں تو یہ پوچھنے پر کہ کون ہے؟اپنا نام بتائیے، میں ہوں! دروازہ کھولو وغیرہ کہنا سنت نہیں۔
* دروازے سے ہٹ کر کھڑی ہوں تا کہ دروازہ کھلتے ہی گھر کے اندر نظر نہ پڑے، کہ کسی کے گھر میں جھانکنا منع ہے۔
* واپسی پر اہلِ خانہ کے حق میں دعا بھی کیجئے،شکریہ بھی ادا کیجئے اور سلام بھی۔
سونے جاگنے کی سنتیں
* سونے سے پہلے بستر کواچھی طرح جھاڑلیجئے تاکہ کوئی کیڑا وغیرہ ہو تو نکل جائے اور سونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لیجئے:اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَ اَحْیَا۔([9])
* عصر کے بعد نہ سوئیں کہ عقل ضائع ہونے کا خوف ہے۔ ایک روایت میں ہے:جو عصر کے بعد سوئے اور اس کی عقل چلی جائے تو وہ اپنے ہی کو ملامت کرے۔([10])
* دوپہر کو قیلولہ(یعنی کچھ دیر لیٹنا)مستحب ہے۔([11])غالباً یہ ان لوگوں کے لئے ہو گا جو شب بیداری کرتے ہیں، رات میں نمازیں پڑھتے ذکرِ الٰہی کرتے ہیں یا کتب بینی یا مطالعے میں مشغول رہتے ہیں کہ شب بیداری میں جو تکان ہوئی قیلولہ سے دفع ہو جائے گی۔([12])
* دن کے ابتدائی حصے میں سونا یا مغرب و عشا کے درمیان میں سونا مکروہ ہے۔([13])
* مستحب ہے کہ باطہارت سوئے۔
* کچھ دیر سیدھی کروٹ پر سیدھے ہاتھ کو رخسار یعنی گال کے نیچے رکھ کر قبلہ رُو سوئے، پھر الٹی کروٹ پر۔
* سوتے وقت قبر میں سونے کو یاد کرے کہ وہاں تنہا سونا ہو گا سوائے اپنے اعمال کے کوئی ساتھ نہ ہو گا۔
* سوتے وقت یادِ خدا میں مشغول ہو، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہ، سُبْحٰنَ اللہ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا ورد کرتی رہے یہاں تک کہ سو جائے کہ جس حالت پر انسان سوتا ہے اُسی پر اٹھتا ہے اور جس حالت پر مرتا ہے قیامت کے دن اُسی پر اٹھے گا۔
* جاگنے کے بعد یہ دعا پڑھئے:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْۤ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَا تَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ۔([14])
* اُسی وقت اس کا پکا ارادہ کر ے کہ پرہیز گاری کروں گی، کسی کو نہیں ستاؤں گی۔([15])
* جب لڑکے اور لڑکی کی عمر دس سال کی ہو جائے تو ان کو الگ الگ سلانا چاہیے۔([16])
* میاں بیوی جب ایک چار پائی پر سوئیں تو دس برس کے بچے کو اپنے ساتھ نہ سلائیں، لڑکا جب حدِّشَہوت کوپہنچ جائے تو وہ مرد کے حکم میں ہے۔([17])
* نیند سے بیدار ہو کر مسواک کیجئے اور اگر تہجد ادا کریں تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔
قبلہ رخ بیٹھنے کی سنتیں اور آداب
قبلے کی طرف منہ کر کے بیٹھنا بھی سنت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اکثر قبلہ رخ تشریف فرما ہوتے ([18])اور اس کی ترغیب بھی دلاتے تھے۔جیسا کہ ایک روایت میں مروی ہے کہ بیٹھنے کی جگہوں میں سب سے عزت والی بیٹھک وہ ہے جس میں قبلے کی طرف رخ کیا جائے۔([19]) ایک اور روایت میں ہے:ہر چیز کے لئے بزرگی ہے اور بیٹھکوں کا شرف یہ ہے کہ ان میں قبلے کو منہ کیا جائے۔([20])
ہمارے بزرگانِ دین قبلہ رخ بیٹھنے اور اپنی چیزوں کا رخ قبلہ کی جانب رکھنے کا خوب اہتمام کرتے تھے، چنانچہ حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہِ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ اپنے وضو کا برتن(لوٹا)بھی قبلہ رو رکھتے تھے۔نیز امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہر چیز کا رخ جانبِ قبلہ رہے۔([21]) ہمیں بھی چاہیے کہ مطالعہ اور ذکر و درود وغیرہ کے وقت اپنے چہرے کا رخ قبلہ کی طرف رکھ کر کام کریں اور قبلہ رو بیٹھ کر اس پیاری سنت کو ادا کر کے ڈھیروں ثواب حاصل کر سکیں۔
سنت پر عمل کے فائدے
سنت پر عمل کرنے کی بے شمار حکمتیں ہیں مثلاً پانی بیٹھ کر پینا سنت ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ پانی دونوں گردوں میں جاتا ہے جبکہ کھڑے ہو کر پینے سے ایک گردے میں جاتا ہے جس سے دوسرا گردہ فیل ہونے کا اندیشہ ہے۔
اسی طرح مسواک کرنا بھی پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری سنت ہے۔مسواک کرنے سے بلغم دور ہو جاتا ہے، عقل بڑھ جاتی ہے اور آنکھوں کی روشنی تیز ہوتی ہے۔اس طرح ہر سنت میں کوئی نہ کوئی حکمت موجود ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتوں پر پابندی سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
محمد کی سنت کی الفت عطا کر میں ہو جاؤں ان پر فدا یا الٰہی
میں سنتوں کی دھومیں مچاتی رہوں کاش! تو دیوانی ایسی بنا یا الٰہی
[1] جامع بیان العلم و فضلہ، ص66،حدیث:201
[2] التعریفات،ص88
[3] ابو داود، 4/267،حدیث:4607
[4] سیر اعلام النبلاء،13/270،رقم:3788
[5] تاریخ ابن عساکر، 9/343
[6]ابوداود،4/420،حدیث:5095
[7] ابوداود،4/421،حدیث:5096
[8] الشفا،2/67
[9] بخاری،4/196،حدیث:6325
[10] مسند ابی یعلی،4/278،حدیث:4897
[11] فتاویٰ ہندیہ،5/376
[12] بہار شريعت،5/435،حصہ:16
[13]بہار شریعت،5/436،حصہ:16
[14] بخاری،4/196،حدیث:6325
[15] فتاویٰ ہندیہ،5/376ملخصاً
[16] درمختار،9/629،630
[17] در مختار،9/630
[18] احیاء العلوم،2/449
[19] مجمع الزوائد،8/114،حدیث:12916
[20] مجمع الزوائد، 8/114،حدیث:12917
[21] جنات کا بادشاہ،ص 14،13
Comments