لالچ
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: اخلاقیات

موضوع: لالچ

(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 34ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کیے جا رہے ہیں۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنتِ محمد شبیر (طالبہ: درجہ خامسہ)

جامعۃ المدینہ فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ لالچ ایک ایسی منفی صفت ہے جو انسان کو ہمیشہ دوسروں کے حقوق پر قبضہ کرنے اور اپنی خواہشات کی بےجا تکمیل کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہ صفت انسان کو دوسروں سے دور کرتی اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ اسلام نے لالچ کو ایک نقصان دہ رویہ قرار دیا ہے اور قرآن و حدیث میں اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔

قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر انسان کو لالچ اور حرام طریقوں سے مال جمع کرنے سے روکا گیا ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:

وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﳔ (پ 16، طہ: 131)

ترجمہ:اور اے سننے والے!ہم نے مخلوق کے مختلف گروہوں کودنیا کی زندگی کی جوتروتازگی فائدہ اٹھانے کیلئے دی ہے تاکہ ہم انہیں اس بارے میں آزمائیں تو اس کی طرف تو اپنی آنکھیں نہ پھیلا۔

یہ آیت انسان کو اس بات کی نصیحت کرتی ہے کہ وہ دوسروں کی چیزوں پر نظر نہ رکھے بلکہ اللہ پاک کی عطا کردہ نعمتوں پر قناعت کرے۔

نبی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے بھی لالچ سے باز رہنے کی بارہا نصیحت فرمائی ہے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے:اگر ابنِ آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو چاہے گا کہ اس کے پاس ایک اور وادی ہو اور اس کے منہ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔([1])یہ حدیث انسانی فطرت کی کمزوری بیان کرتی ہے کہ دنیاوی دولت کی حرص کبھی ختم نہیں ہوتی اور لالچ انسان کو اللہ کی نعمتوں کا ناشکرا بناتا ہے کہ لالچی انسان جو نعمت میسر ہے اس کو چھوڑ کر جو نہیں ہے اس کیلئے کڑھتا رہتا ہے۔

لالچ کے نقصانات:

لالچ کے نقصانات نہ صرف فرد بلکہ معاشرے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ چند نقصانات یہ ہیں:

روحانی نقصان:

لالچ اللہ کی رحمتوں سے دوری کا باعث بنتا ہے۔

ذہنی پریشانی:

لالچ انسان کو ہمیشہ بے سکون رکھتا ہے کیونکہ لالچی انسان ہمیشہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے۔

معاشرتی نقصان:

لالچی انسان دوسروں کے حقوق چھیننے کی کوشش کرتا ہے اور یوں معاشرتی فساد پیدا ہوتا ہے۔

لالچ ایک ایسی برائی ہے جو انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں نقصان پہنچاتی ہے۔قرآن و سنت کی روشنی میں اس سے بچنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔

لالچ سے بچنے کے طریقے:

لالچ سے بچنے کے لئے قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کے ساتھ ساتھ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا کیجئے۔اپنی دولت کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کیجئے،کیونکہ لالچ کی وجہ اکثر مال و دولت کی محبت ہوتی ہے، لہٰذا کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے کی برکت سے دل مال و دولت کی محبت سے خالی ہوگا اور دل سے لالچ کی بیماری ختم ہوگی۔دنیاوی زندگی کو عارضی اور آخرت کو حقیقی منزل سمجھئے،کیونکہ جب ہمارا یہ ذہن ہوگا کہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے وہ سب ختم ہونے والا ہے تو اس کے لئے کڑھنا، دوسروں سے جلنا اور اس کو حاصل کرنے کے لئے اخلاقی حدود سے گر جانا خود ہی برا لگنے لگے گا۔اللہ پاک سے ہمیشہ اس بیماری سے بچنے کی دعا بھی کرتی رہیے کہ یہ بھی بہت مؤثر ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں لالچ جیسی بیماری سے محفوظ رکھے اور اپنی نعمتوں کی شکر گزار بنائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  

بنتِ وسیم عطاریہ (طالبہ: درجہ خامسہ)

جامعۃ المدینہ صدر راولپنڈی

حرص اور لالچ؛یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے مترادف یعنی ہم معنی ہیں اردو میں لفظ لالچ اور عربی میں حرص بولا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حرص کہتے کسے ہیں؟ چنانچہ اس حوالے سے مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص کہتے ہیں([2])   اور حرص رکھنے والے کو حریص کہتے ہیں۔

حرص یا لالچ ایک ایسی چیز ہے کہ جو دودھ پیتے بچے سے لے کر سو سالہ بوڑھے تک امیر ہو یا غریب،مرد ہو یا عورت، حاکم ہو یا محکوم،افسر ہو یا ملازم کوئی بھی اس سے بچ نہیں پاتا۔ کسی کو مال و دولت کی حرص ہوتی ہے تو کسی کو کچھ اور۔قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا:

وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- (پ 5، النسآء: 128)

ترجمہ: اور دل کو لالچ کے قریب کردیا گیا ہے۔تفسیر خازن میں ہے: لالچ دلوں کا لازمی حصہ ہے۔([3])

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حرص صرف مال و دولت کی ہی ہوتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔مولانا عبدُ المصطفیٰ اعظمی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک،لباس، مکان،سامان،دولت،عزت،شہرت غرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔([4])

انسان تو ایک طرف لالچ تو ایسی چیز ہے جس سے جانور بھی محفوظ نہیں جیسا کہ ایک کتے کے بارے میں ایک حکایت بھی مشہور ہے کہ ایک کتا نہر میں اپنا ہی عکس دیکھ کر لالچ کی وجہ سے اپنی ایک ہڈی بھی گنوا بیٹھا۔

حرص تین طرح کی ہوتی ہے:(1)حرصِ محمود(یعنی اچھی حرص)جیسے نیکیوں کی حرص۔(2)حرصِ مذموم(یعنی بری حرص)  جیسے گناہوں کی حرص اور(3)حرصِ مباح (جائز) جیسے کھانے کی حرص۔

یاد رہے!حرصِ مباح اچھی نیت سے محمود جبکہ بری نیت سے مذموم بن جاتی ہے۔بری لالچ کے بہت سے نقصانات ہیں، مثلاً لالچ بری بلا ہے، لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے، لالچ عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے، لالچ کی نحوست کے سبب دل سے خوفِ خدا نکل جاتا ہے، لالچ کی وجہ سے انسان اپنوں کا دشمن بن جاتا ہے،لالچ کے سبب انسان لوگوں کے احسانات کو بھلا دیتا ہے،لالچ انسان کو غیبت،چغلی،دل آزاری اور الزام تراشی پر ابھارتا ہے، لالچ فتنوں کو جگاتا ہے، لالچ اچھے برے کی تمیز بھلا دیتا ہے، لالچ انسان کو ظلم پر ابھارتا ہے،بڑوں کے ادب سے محروم کر دیتا ہے، بھلائی اور خیر خواہی کا جذبہ مٹا دیتا ہے،انسان کو مفاد پرست بنا دیتا ہے،ہمدردی کا جذبہ ختم کر دیتا ہے،دنیا اور آخرت میں بربادی کا سبب بنتا ہے، انسان کو بے سکونی میں مبتلا کرتا ہے، انسان کو اکیلا کر دیتا ہے اور لالچ کا انجام انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔

اسی لالچ کا رخ موڑ کر اگر اسے ایک نیا رنگ دیا جائے یعنی اپنی سوچ کو وسیع کر کے ہم نیکیوں کی حریص بن جائیں اور کسی کو نیک کام کرتی دیکھیں تو ہمارے دل میں ایک ہلچل سی مچ جائے کہ مجھے بھی یہ کام کرنا ہے تو ہم اپنے ثواب میں بے انتہا اضافہ کر سکتی ہیں۔اللہ پاک ہم سب کو حرصِ مذموم سے بچنے اور حرصِ محمود کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔



[1] مسلم، ص 404، حدیث: 2417

[2] مراۃ المناجیح، 7/86 مفہوماً

[3] تفسیر خازن، 1/437

[4] جنتی زیور، ص 111


Share