سلسلہ: اخلاقیات
موضوع: قناعت
*ام انس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قناعت کا مطلب تنگی و بدحالی میں شکوہ اور واویلا کرنے کے بجائے صبر و شکر سے کام لینا اور قسمت کے فیصلوں پر راضی رہتے ہوئے کم پر ہی گزارا کر لینا ہے۔([1]) امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ قناعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:تنگ دستی اور حاجت سے کم ہونے کے باوجود صبر کیا جائے تو اسے بھی قناعت کہتے ہیں۔([2])
قناعت ایک ایسا ہنر ہے جس کے ذریعے ہم مشکل ترین اور کٹھن حالات بھی خوشی و اطمینان کے ساتھ گزار سکتی ہیں،خواہ مخواہ لاحاصل کی طلب میں خود کو تھکانے سے بہتر ہے کہ جو ہے اسے کافی سمجھا جائے اور اللہ پاک کی طرف سے جو مل جائے اسے خوشی خوشی دل و جان سے قبول کیا جائے۔ قناعت نیک لوگوں کا وصف ہے جو اللہ اپنے فضل سے جسے چاہے عطا فرماتا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
وَ اَنَّهٗ هُوَ اَغْنٰى وَ اَقْنٰىۙ(۴۸)
(پ 27، النجم: 48)
ترجمہ: اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی کیا اورقناعت دی۔
یعنی امیروں کو غنا اور فقیروں کو قناعت بخشی یا اپنے محبوبوں کا دل غنی بنایا اور ظاہری قناعت عطا فرمائی بعض امیروں کو غنا کے ساتھ ساتھ قناعت بھی دی ہوس سے بچایا۔([3])
الغرض قناعت ایک بیش بہا دولت ہے جو کہ مسلمانوں کا شیوہ ہونا چاہیے مگر افسوس!آج اس زیورِ قناعت کو ہم سے چھین کر حرص و طمع کا بدنما طوق ہمارے گلے میں ڈال دیا گیا ہے،دنیا کی رنگینیاں ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہیں، گلیمر کا دور ہے، نت نئے کھانے اور مختلف تراش خراش کے قیمتی ملبوسات کی بھرمار ہے،جیولری اور میک اپ کی لاکھوں اقسام موجود ہیں، ایسے میں قناعت اختیار کرنا اور جو ہے اس پر صبر کرنا خواتین کے لئے ایک مشکل معاملہ ہو گیا ہے۔اگر 30- 40 سال پہلے کا دور دیکھیں تو ان باتوں کا اتنا زیادہ چلن نہیں تھا، گھروں میں سادہ کھانے بنتے،صرف عید پر ہی نئے کپڑے بنائے جاتے،جو سارا سال ہی تقریبات میں پہنے جاتے تھے، جو سونے یا چاندی کا زیور ہوتا وہی سارا سال خواتین پہنے رہتیں، عید پر جو سینڈل چپل خرید لی سال بھر کے لئے فرصت، اب بیچ میں ٹوٹنے پر ہی دوسری خریدی جاتی تھی،خواتین گھروں میں سرمہ پاؤڈر لگا کر تیار ہو جاتیں یہاں تک کہ دلہن کو بھی سر میں خوشبودار تیل لگا کر چوٹی گوند کر سرمہ لگا کر تیار کر دیا جاتا تھا،یوں شادیاں بھی سادہ تھیں اور خرچ بھی بہت کم۔ کپڑے بھی مناسب قیمت کے ہی ہوتے تھے یہاں تک کہ دلہن کے کپڑے بھی گھر پر ہی سی لئے جاتے تھے گوٹا کناری لگا کر سجا دیا جاتا تھا، پھر جیسی جس کی حیثیت ہوتی اسی اعتبار سے جیولری ہوتی تھی۔
اب ٹی وی گھر آگیا، اقدار و روایات میں تبدیلی آئی، عورتوں کی ڈیمانڈ بڑھ گئی اور اب تو نیٹ کی دنیا نے دنیا ہی بدل ڈالی ہے، صبر و قناعت تو جیسے”ماضی کی یادیں“ بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ یہ اُمّتِ محمدیہ کا خاص وصف اور اس کا شعار ہے،جس کی نشاندہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے ایک فرمان میں یوں کی کہ احمدِ مجتبیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُمتی اللہ پاک سے تھوڑے رزق پر راضی رہنے والے ہوں گے اور اللہ بھی ان سے تھوڑے عمل پر راضی ہوگا۔([4])
بلاشبہ قناعت اپنانا اللہ پاک کا محبوب بنا سکتا ہے، جیسا کہ ایک روایت میں ہے: اللہ پاک ہر پرہیزگار، قناعت پسند اور گمنام بندے کو پسند فرماتا ہے۔([5])لہٰذا ہر عورت کوشش کرے تو اس دولت کو پانے میں کامیاب ہو سکتی ہے،اس حوالے سے ان باتوں پر عمل کیا جا سکتا ہے:٭قناعت کی فضیلت اور اس کے دینی و دنیوی فوائد پر غور کیجئے کہ قناعت اختیار کرنے سے خرچ میں کمی ہوگی،قرضوں سے جان چھوٹے گی، زندگی پر سکون ہوگی، مردوں پر بھی بوجھ کم ہوگا، نیا گھر،نئی گاڑی،نیا فرنیچر، نئے کپڑے،فلاں انداز کے کپڑے، فلاں اسٹائل کی جیولری وغیرہ کے بارے میں سوچنے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے وہ رب کی رضا اور فائدے والے کاموں میں خرچ ہوگا۔٭صحابیات و صالحات اور بزرگ خواتین کی سیرت کا مطالعہ کیجیے جن کے دل لالچ سے خالی تھے، ان کے پاس جب پیسہ آتا تو اپنی اور گھر کی سجاوٹ کا خیال تو دور کی بات ضرورت کی بھی پروا کئے بغیر سارا مال راہِ خدا میں خرچ کر دیتیں۔٭قناعت کی ضد حرص ہے اپنی حرص کا علاج کرنے کی کوشش کیجیے۔یاد رکھیے! ضرورت و اہمیت اور چیز ہے اور حر ص و لالچ اور۔ خود کے پاس نئے عمدہ کپڑے ہونے کے باوجود کسی کو اچھا ڈریس پہنے دیکھ کر اس کی تمنا کرنا، سوشل میڈیا پر نئی پراڈکٹ دیکھ کر خواہ مخواہ اس کی حرص کرنا چھوڑ دیجئے، آرام پائیں گی اور عزت سے رہیں گی اور زندگی بھی آسانی سے گزرے گی۔ کیونکہ جو قناعت اختیار کرتا ہے وہ زمانے والوں سے آرام پاتا ہے اور تمام لوگوں سے سبقت لے جاتا ہے۔ ([6])
قناعت اختیار کرنے اور حرص کا علاج کرنے کے لئے اچھی صحبت بہت اکسیر ہے جو کہ دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں ہمیں بآسانی میسر آ سکتی ہے،لہٰذا دینی ماحول میں آ جائیے اور سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کو اپنا معمول بنا لیجئے، ان شاء اللہ دینی ماحول کا اثر ہوگا اور جتنا رب نے دیا ہے اسی پر راضی رہنے میں خوشی محسوس ہوگی۔نیز اپنا یہ ذہن بھی بنائیے کہ جو میرے نصیب میں ہے وہ مجھے ضرور ملے گا اور جو نصیب میں نہیں اس میں میرے لئے بہتری ہے اور وہ ہرگز مجھے نہیں ملے گا۔
حضرت امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے ایک چڑیا شکار کی، چڑیا نے اس شخص سے کہا: تم میرا کیا کرو گے؟ اس نے کہا: ذبح کر کے کھاؤں گا! چڑیا نے کہا: اللہ کی قسم! مجھ سے تیری خواہش پوری ہوگی نہ تیری بھوک مٹے گی، البتہ! میں تجھے تین باتیں بتا سکتی ہوں جو مجھے کھانے سے بہتر ہیں، پہلی بات تو میں تجھے تیرے ہاتھ میں ہی بتاؤں گی اور دوسری اس وقت بتاؤں گی جب میں درخت پر ہوں گی جبکہ تیسری بات اس وقت بتاؤں گی جب میں پہاڑ پر ہوں گی۔ اس شخص نے کہا: پہلی بات بتاؤ!چڑیا نے کہا:گزری ہوئی بات پر افسوس نہ کرنا۔ اس نے اسے چھوڑ دیا، جب وہ درخت پر چلی گئی تو اس نے کہا: دوسری بات بتاؤ! چڑیا نے کہا: جو کام نہیں ہو سکتا اس کے ہونے کا یقین نہ کرنا پھر وہ اڑ کر پہاڑ پر جا بیٹھی اور کہا:اے بدبخت! اگر تو مجھے ذبح کرتا تو میرے پوٹے میں سے دو موتی نکالتا ہر موتی کا وزن 20 مثقال ہوتا۔ یہ سن کر شکاری نے کفِ افسوس ملتے ہوئے کہا : اب تیسری بات تو بتا! چڑیا نے کہا: پہلی دو باتیں تو بھول چکا ہے میں تجھے تیسری کیسے بتاؤں؟ کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا جو کچھ ہاتھوں سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرنا اور جو کچھ نہیں ہو سکتا اس پر یقین نہ کرنا۔ میں تو گوشت خون اور پروں کا مجموعہ ہوں جو سب ملا کر بھی 20 مثقال کو نہیں پہنچتا تو میرے پوٹے سے 20، 20 مثقال کے دو موتی کیسے نکل سکتے تھے! یہ کہہ کر وہ اڑ گئی۔([7])
بس ہم بھی چڑیا کی ان نصیحتوں پر عمل کریں جو نہیں ملتا اس پر افسوس نہ کریں بلکہ مطمئن رہیں جو موجود ہے اس پر راضی رہیں، ان شاء اللہ دنیا و آخرت دونوں پرسکون رہیں گی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ
[1] التعریفات للجرجانی،ص126مفہوماً
[2] احیاء العلوم، 4/83
[3] تفسیر نور العرفان، ص 843
[4] تفسیر خازن، 4/ 262
[5] مسلم، ص 1212، حدیث: 7432
[6] رسالۂ قشیریہ، ص 198
[7] مکاشفۃ القلوب، ص 124،123
Comments