حضرت ضَحّاک بن قَیس رضی اللہُ عنہ

روشن ستارے

حضرت ضَحّاک بن قَیس  رضی اللہ عنہ  

* مولانا عدنان احمد عطاری مدنی

ماہنامہ جولائی 2021ء

مشہور صحابی رسول حضرت ابو اُنَیس ضَحاک بن قَیس   رضی اللہ عنہ   کی پیدائش نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ظاہری وفات سے تقریباً سات سال پہلے ہوئی۔ [1] آپ   رضی اللہ عنہ   کا شمار کم عمر اور فقہا صحابہ میں ہوتاہے۔ [2]

پریشان کو مزید پریشان نہ کرو :

آپ اپنا ایک واقعہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ دورانِ سفر مجھے اُونگھ آگئی تو میں کسی اور راستے پر نکل گیا اور وہ اونٹ بھی کھو گیا جس پر پانی رکھا ہوا تھا ، مجھے سخت پیاس لگی تو میں نے اپنے ساتھی کو پانی تلاش کرنے بھیجا اور خود راستے کے بیچ میں کھڑا رہا ، اچانک مجھے ایک آدمی دکھائی دیا ، میں نے اس سے پانی مانگا تو اس نے (میری حالت اوربے چینی کو دیکھتے ہوئے) کہا : قیمت ملے بغیر پانی نہیں دوں گا ، میں نے کہا : کیا قیمت ہے؟ اس نے (میری پریشانی اور مصیبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے) کہا : 100دینار! میں نے کہا : مہمان کو پانی پلانا ، کھانا کھلانا اور اس کی عزت کرنا کیا تم پر لازم نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا : ہم کبھی یہ کام کرتے ہیں اور کبھی نہیں کرتے ، میں نے کہا : مجھے تو لگ رہا ہے کہ تم نے یہ کام کبھی بھی نہیں کیا ، پھر میں نے 100 دینار کی ضمانت دی اور اپنی کمان اس کے پاس گروی رکھوادی ، وہ پانی کی طرف مڑا اور دوڑ لگا دی تاکہ میرے لئے پانی لائے ، میں نے (دل میں) کہا : مجھے اب اس کی ضرورت نہیں ، میں اس جگہ کے قریب گیا تو وہاں لوگ پانی کے پاس جمع تھے ، میں نے ان سے پانی مانگا تو ایک بوڑھے آدمی نے اپنی بیٹی سے کہا : اسے پانی پلا دو ، وہ میرے پاس پانی اور دودھ لے آئی جسے پی کر میں نے اپنی پیاس بجھائی۔ اتنے میں وہ پہلا شخص آگیا اور مجھ سے کہنے لگا : میں نے تمہاری پیاس بجھائی ہے اور تم میرے حق کو لے جارہے ہو میں تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک 100دینار پورے وُصول نہ کرلوں ، (شور سُن کر) سب لوگ میرے اِرد گرد جمع ہوگئے ، میں نے کہا : یہ بڑا گھٹیا اور نیچ آدمی ہے اس نے میرے ساتھ ایسا بُرا سلوک کیا ہے اور اس بوڑھے آدمی نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے ، سب لوگوں نے اس پہلے آدمی کو بُرا کہنا شروع کردیا ، اس دوران میرے ساتھی میرے پاس آگئے اور میرے مقام اور رتبے کے مطابق میری خدمت میں آداب بجالائے ، یہ دیکھ کر وہ شخص وہاں سے بھاگنے کےلئے کھسکنے لگا ، میں نے کہا : اللہ کی قسم! میں تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک تم کو 100 نہ دے دوں ، پھر میں نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اس ناہنجار آدمی کو 100 تازیانے لگاؤ اور اس بوڑھے اور اس کی بیٹی کو 100 دینا ر اور کپڑے دے دو۔ [3]

تعلقات :

کسی نے حضرت ابنِ عمر    رضی اللہ عنہ ما  سے پوچھا : آپ کے حضرت ضحاک سے کیسے تعلقات ہیں؟ حضرت ابنِ عمر    رضی اللہ عنہ ما  نے فرمایا : جب ہم ملتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں : آپ کیا پسند کرتے ہیں؟ جب جدا ہوتے ہیں تو پوچھتے ہیں : کچھ اور چاہئے؟[4]

چادر تحفے میں دے دی :

آپ کی طبیعت میں سخاوت بھی شامل تھی ایک مرتبہ آپ نے 3سو دینار کی ایک چادر پہنی ہوئی تھی ، ایک شخص نے اسے خریدنا چاہا تو آپ نے وہی چادر اس کو تحفے میں دے دی اور ارشاد فرمایا : یہ آدمی کی لالچ ہےکہ وہ اپنی چادر کو بیچے۔ [5]

ناپسندیدگی :

ایک مؤذن نے آپ سے کہا : میں اللہ کے لئے آپ سےمحبت کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : لیکن میں اللہ پاک کے لئے تجھے ناپسند رکھتا ہوں ، اس نے پوچھا : ایسا کیوں؟ آپ نے جواب دیا : تُو اذان دینے میں حد سے بڑھ جاتا ہے۔ [6]

اصلاح :

حضرت ضَحاک بن قَیس   رضی اللہ عنہ   بے مثال خطیب بھی تھے اور دورانِ خطابت اصلاح کے پہلو کو بھی مَدِّ نظر رکھتے تھے ، کوفہ میں گورنری کے دوران ایک مرتبہ آپ نےمنبر پر اللہ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد لوگوں سے فرمایا : تم میں کچھ لوگ وہ ہیں جو ہمارے نیک پرہیز گار اسلاف کو گالیاں دیتے ہیں ، قسم اس ذات کی جس کا کوئی شریک و مثل نہیں! جو باتیں مجھ تک پہنچی ہیں اگر تم ان سے باز نہ آئے تو ننگی تلوار نکال لوں گا پھر تم مجھ سے نہ تو کوئی کمزور دیوار پاؤ گے اور نہ ہی بے دھار کی کند تلوار۔ [7]

ذِکْرِ الٰہی :

ایک موقع پر فرمایا : تم اللہ کا ذکر خوشحالی میں کیا کرو ، وہ تمہاری تنگ دستی میں تمہیں یاد رکھے گا۔ [8]

تربیت :

آپ بچّوں اور اہلِ خانہ کی تربیت کا خوب ذہن دیتے تھے ، چنانچہ فرمایا کرتے : اے لوگو! اپنی اولاد اور گھر والوں کو قراٰن سکھاؤ۔ [9]

نماز کا حق :

ایک بار یوں فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو نماز کا حق ادا کرے ، جو شخص نماز میں کھڑا ہوتا ہےاور اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اس کی مثال اس گھوڑے کی طرح ہے جس کے گلے میں توبْرَہ (دانہ کھلانےکا تھیلا) لٹکا ہوا ہے مگر چارے سے خالی ہے ، جو اس کو دیکھے گا وہ خیال کرے گا کہ گھوڑا اس میں سے کھالے گا مگر وہ تو خالی ہے۔ [10]

ذخیرہ اندوز :

ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر آپ سخت گرفت کرتے اور فرماتے : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ یہ بھی فرمایا کرتےتھے : اللہ کریم پر بھروسا رکھو اور اپنے حیلے بہانوں پر اعتماد نہ کرو ، کئی مرتبہ حیلے بہانے بندے کو ہلاکت کی طرف لے جاتے ہیں۔ [11]

ریا کاری سے بچو :

ایک مقام پر فرمایا : اے لوگو! اپنے اعمال کو خالصۃً اللہ کےلئے کرلو کیونکہ اللہ وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص ہو ، جب تم میں سے کوئی کسی کو تحفہ دے یا کسی کی غلطی مُعاف کرے یا صِلۂ رَحمی کرے تو اپنی زبان سے ہرگز یوں نہ کہے : یہ اللہ کے لئے ہے ، کیونکہ اللہ پاک اس کی دلی حالت کو جانتا ہے۔ [12]

وسیلہ :

ایک مرتبہ شہرِ دمشق میں قحط سالی ہوگئی اس وقت آپ   رضی اللہ عنہ   دمشق کے گورنر تھے ، آپ نے تابعی بُزرگ حضرت یزید بن اَسود  رحمۃُ اللہ علیہ  کو بلوایا اور کہا : آپ کھڑے ہوجائیے اور اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی بن جائیے ، حضرت یزید بن اسود نے بارگاہِ الٰہی میں دُعا کی : اے اللہ! تیرے بندے میرے ذریعے تیرا قُرب پانا چاہتے ہیں تو ان کو سیراب کردے ، کچھ دیر نہ گزری کہ اتنی بارش برسی کہ لوگ ڈوبنے کے قریب ہوگئے۔ [13]

مجاہدانہ و سیاسی زندگی :

آپ   رضی اللہ عنہ   کا شمار بہادر سرداروں میں ہوتا ہے [14]آپ دمشق کی فتح میں شامل مجاہدین میں سے ہیں[15] جنگِ صَفّین میں آپ حضرت سیّدُنا امیر معاویہ   رضی اللہ عنہ   کے ساتھ تھے[16] 53 ہجری میں کوفہ کے گورنر نامزد ہوئے ، 57ہجری میں دمشق تشریف لاکر گورنری کا عہدہ سنبھالا اور عرصہ دراز تک اسی عہدے پر فائز رہے[17]آپ نےحضرت امیر معاویہ   رضی اللہ عنہ   کا جنازہ پڑھایا تھا[18] 64ہجری میں حضرت عبد اللہ بن زبیر   رضی اللہ عنہ   نے اپنی خلافت کا اعلان کیا تو آپ نے اکثر اہلِ شام سے حضرت عبدُ اللہ بن زبیر کی بیعت لے لی۔[19]

شہادت :

مگر یہ بات مروان بن حکم کو ایک آنکھ نہ بھائی لہٰذا مقابلے پر اُتر آیا ، آپ کے پاس شہسواروں کی بڑی تعداد تھی ، مروان کسی طرح جنگ جیت نہ سکتا تھا اس نے آپ کو صلح کا دھوکا دیا تو آپ اس کے کہنے میں آگئے اور صلح قبول کرلی ، یوں آپ کی فوج نے اسلحہ رکھ دیا اور جنگ رک گئی ، مروان نے اس موقع کو غنیمت جانا اور دھاوا بول دیا۔ [20] 15ذو الحجہ 64 ہجری میں “ مَرْجِ راھط “ نامی مقام پر اسی جنگ میں آپ  رضی اللہ عنہ  نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ [21]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ  فیضان مدینہ کراچی



[1] الاستیعاب ، 2 / 297 ، زرقانی علی الموطأ ، 1 / 352 ، تحت الحدیث : 243

[2] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 374 ، تاریخ ابن عساکر ، 24 / 288

[3] انساب الاشراف ، 11 / 52ملخصاً

[4] معجم کبیر ، 12 / 308

[5] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 375

[6] انساب الاشراف ، 11 / 46ملخصاً

[7] ایضاً ، 11 / 51

[8] ایضاً ، 11 / 47

[9] ایضاً ، 11 / 47

[10] ایضاً ، 11 / 48

[11] ایضاً ، 11 / 55

[12] تاریخ ابن عساکر ، 24 / 282

[13] الاحاد و المثانی ، 2 / 136 ، تاریخ ابن عساکر ، 65 / 113

[14] اعلام للزرکلی ، 3 / 214

[15] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 374

[16] اعلام للزرکلی ، 3 / 214

[17] الاستیعاب ، 2 / 297

[18] سیر اعلام النبلاء ، 4 / 375

[19] الاستیعاب ، 2 / 297 ، فتح الباری ، 14 / 60

[20] الاستیعاب ، 2 / 298 ملخصاً

[21] طبقات ابن سعد ، 7 / 288


Share