بری عادات(قسط5)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: حصولِ علمِ دین کی رکاوٹیں

موضوع: بری عادتیں (قسط 5)

*بنتِ  افضل عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسٹوڈنٹس کے دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کے اسباب و وجوہات ذکر کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ذیل میں بیان کردہ بعض بُری عادتیں ایسی ہیں جو اسٹوڈنٹس میں پائی جائیں تو حُصولِ عِلمِ دین میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔

حصولِ علم میں سنجیدہ نہ ہونا

سنجیدگی کا لفظ اپنے اندر انتہائی وسعت سمیٹے ہوئے ہے۔ گویا  یوں کہا جا سکتا ہے:*سنجیدگی ڈھنگ سے جینے کی بنیادی و اہم  ترین شرط ہے کیونکہ یہ عمدہ طرز زندگی کے لیے اوّلین حیثیت رکھتی ہے۔*سنجیدگی کامیاب زندگی کے متعلق پکی اور دیانت دارانہ رائے رکھنے کا نام ہے۔*سنجیدگی حقیقت پسندی کا نام ہے۔*سنجیدگی خود اعتمادی،مثبت افکار و نظریات سے متصف ہونے کا نام ہے۔*محبت،شفقت، نرمی،عمدہ اخلاق کا حامل ہونا بھی سنجیدگی ہے۔ *اپنے کاموں کو وقار،خوش اسلوبی اور ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنا بھی سنجیدگی ہے۔ * اعمال و گفتار کو تَدَبُّر، فہم و فراست، بردباری، تحمل مزاجی  اور شائستگی سے آراستہ کرنا بھی سنجیدگی میں شمار ہوتا ہے۔*سنجیدگی مُروَّت و خود داری کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے منصب و عہدے کی ذمہ داریوں کو اخلاص و وفا داری سے نبھانا بھی سنجیدگی ہے۔ الغرض سنجیدگی کے دامن سے بہت سی  اچھائیاں اور بھلائیاں وابستہ ہیں جن کا حصول کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے۔

ہر وقت چہرے پر اداسی طاری کیے رکھنے کو سنجیدگی نہیں بلکہ خشکی کہتے ہیں۔ مسکرانا اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا سنجیدگی کے خلاف نہیں لہٰذا جب کسی سے ملاقات ہو تو حسبِ ضرورت مسکرائیے اور خندہ پیشانی سے پیش آئیے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:اَلْقَہْقَہَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ وَالتَّبَسُّمُ مِنَ اللہ یعنی قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے اور مسکرانا اللہ پاک کی طرف سے ہے۔([1])مسکرانا ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عادتِ کریمہ تھی۔حسبِ ضرورت ایسی  خوش طبعی کرنا جس سے کسی کی نہ ذلت ہو اور نہ دل دکھے تو اس میں کوئی حرج نہیں،  البتہ فضول باتیں کرنا اور قہقہے مار مارکر  ہنسنا سنجیدگی کے خلاف ہے کیونکہ قہقہہ شیطان کی طرف سے ہے۔ یاد رکھیے! قہقہہ مار کر ہنسنا  سنت نہیں  ہے مگر  ناجائز و حرام بھی نہیں، لہٰذا اگر کوئی استاد صاحب، عالمِ دین یا اور کوئی قابلِ تعظیم شخصیت قہقہہ لگائے تو ان کے بارے میں کسی قسم کی میل دل میں نہ لائیں اور نہ ہی انہیں ناجائز  و حرام کام  کرنے والا ٹھہرائیں۔([2])

سنجیدگی کے مفہوم کے پیشِ نظر یہ بات جاننا مشکل نہیں ہے کہ سنجیدہ پن زندگی کا بنیادی تقاضا ہے۔یہ سنجیدگی کا ہی تو کمال ہے کہ چھوٹے لوگوں کو بھی بڑے بڑے کاموں کے لیے تیار کر لیتی ہے۔اس لیے اپنی طبیعت و مزاج میں سنجیدگی کا وصف پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔سنجیدگی سے ہی ہمارے معاملات میں ٹھہراؤ،سکون،وقار و شائستگی اور استقامت پرورش پاتی ہے ۔چنانچہ،

حصولِ علمِ دین جیسے اہم ترین معاملے میں اسٹوڈنٹس کا سنجیدہ ہونا انتہائی ضروری ہے، کیونکہ حصولِ علم ایسا شعبہ ہے جو اول تا آخر سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ہر اس فرد نے ترقی پائی ہے جس نے سنجیدگی کو حرزِ جاں بنایا  اور انہی اسٹوڈنٹس نے علم کی معراج پائی جنہوں نے اس راہ کی منازل  سنجیدگی کی سیڑھی پہ سوار ہو کر طے کیں، یہاں تک کہ آخرت میں بھی بخشش کا پروانہ پایا، جیسا کہ کسی بزرگ کو خواب میں دیکھ کر جب یہ پوچھا گیا کہ اللہ پاک نے ان کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ تو انہوں نے اپنی بخشش کا سبب یہ بیان فرمایا کہ انہوں نے کبھی بھی سنجیدگی کو مذاق کے ساتھ نہیں ملایا( یعنی سنجیدہ بات کو مذاق میں نہیں ڈھالا اور ہمیشہ سنجیدہ رہے )۔ ([3])

لہٰذا اسٹوڈنٹس کو چاہیے کہ وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ سنجیدہ ہوں، وقت کو مذاق مسخری میں نہ گزاریں، تاکہ علمِ دین کے سارے فوائد کو حاصل کر سکیں ۔بد اخلاقی سے بھی بچتے رہیں کہ لوگوں کا ان سے بد ظن ہونا  دین سے دوری کا سبب نہ بن جائے۔لیکن افسوس!بعض نادان اسٹوڈنٹس لاکھ کوششوں کے باوجود اپنی پڑھائی کو سنجیدہ لیتے ہی نہیں اور فضول کاموں میں اپنا قیمتی وقت برباد کر کے انتہائی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہیں جیسے بن بتائے چھٹیاں کرنا، وقت پہ حاضر نہ ہونا، کلاس روم میں شور شرابا کرنا،استطاعت کے باوجود کتابیں نہ خریدنا، ٹیچرز کی نصیحتوں کو نظر انداز کر نا اور ان کی بات کا  سیدھا جواب نہ دینا بلکہ جھوٹ بولنا یا ان کی کسی بات کا مذاق بنا لینا یا ان کی نقلیں اتارنا، پڑھائی کے وقت گپیں ہانکنا، موبائل فون میں  لگے رہنا، جان بوجھ کر سبق یاد نہ کرنا، اپنی من مانیاں کرنا، مذاق مسخریاں کرنا،بدتمیزی سے پیش آنا اور بات بات پہ لڑائی جھگڑے کرنا وغیرہ وغیرہ ۔

ذکر کی گئی عادات والے اسٹوڈنٹس کی انہی حرکات کے سبب کبھی ان کو ٹیچرز  کے سامنے، کبھی کلاس فیلوز کے سامنے اور کبھی ایڈمنسٹریشن کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے، ایسوں کو چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور  اپنی ذات سے ان بری عادات کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں کیونکہ جب تک یہ ان عادات میں مبتلا رہیں گے اور اپنے مزاج میں سنجیدگی نہیں لائیں گے تو کامیابی کا حصول بہت مشکل ہو گا اور یہ اسی طرح ہر ایک کے سامنے شرمندہ ہوتے رہیں گے۔ اکثر دیکھا یہی گیا ہے کہ ایسی بری عادات والے اسٹوڈنٹس سے ادارے والے تنگ آ کر معذرت کا نوٹس تھما دیتے ہیں، پھر  شرمندگی وپچھتاوا اور معافی مانگنا کام نہیں آتا اور علمِ دین سے محرومی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ لہٰذا ایسے اسٹوڈنٹس کو چاہئے کہ جب وہ علمِ دین کے لیے نکلے ہی ہیں تو وقار کے ساتھ بڑھتے چلے جائیں، شوقِ تعلیم کے ساتھ ساتھ سنجیدگی کو اپنے مزاج کا حصہ بنا ئیں تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکیں اور اعلیٰ کامیابی کا حصول آسان ہو جائے۔مذاق مسخری کی عادت نکال دیں،سنجیدہ کلاس فیلوز کی صحبت میں رہیں اور غیر سنجیدہ کلاس فیلوز سے دور رہیں، اپنے اندر سنجیدگی  پیدا کرنے کے لئے بزرگانِ دین رحمۃ اللہِ علیہم کے ارشادات کا مطالعہ کریں۔ مثلاً مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ امیر المومنین فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کا یہ فرمان یاد رکھیں کہ علم کے لیے وقار اور سنجیدگی سیکھو۔([4]) اور حضرت ابو ادریس خولانی رحمۃ اللہِ علیہ کا یہ فرمان بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی شخص نے سنجیدگی اور وقار سے  اچھا  کوئی  ہار نہیں  پہنا۔([5])امام بہاء الدین مصری شافعی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جلد باز خطا کرتا ہے اگرچہ بادشاہ بن جائے جبکہ سنجیدگی اور وقار سے کام کرنے والا درستی پر ہوتا ہے اگرچہ تباہ و برباد ہو جائے۔([6])جبکہ امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: سنجیدگی بہت عظیم نعمت ہے اور یہ مذاق مسخری کرنے والوں، فضول گویوں اور شور مچانے والوں کے مقدّر میں کہاں! ([7])اللہ پاک  علمِ دین حاصل کرنے والے تمام اسٹوڈنٹس کو اپنے باوقار محبوبِ کریم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے  وقار و سنجیدگی کی بیش قیمت دولت عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز یزمان بہاولپور



[1]  جامع صغیر، ص386،حدیث:6196

[2]حافظہ کمزور ہونے کی وجوہات،ص31 تا33

[3]احیاء العلوم،5/264

[4]جامع بیان العلم و فضلہ،ص187،رقم:599

[5] حلیۃ الاولیاء،5/142،رقم:6625

[6] مستطرف، 1/ 47

[7] ماہنامہ فیضان مدینہ  جولائی 2017،ص25


Share