
سلسلہ:اخلاقیات
موضوع:بے حیائی
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 31ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنتِ شفیق عطاریہ(اول پوزیشن)
(جامعۃ المدینہ گرلز صدر قاسم مارکیٹ، راولپنڈی)
اللہ پاک نے انسان کو دیگر حیوانات پر ترجیح دی،اسے اشرف المخلوقات بنایا اور اس کے اندر بہت سی ایسی صفات پیدا فرمائیں جو دیگر مخلوقات میں نہیں پائی جاتیں،انہی میں ایک صفت حیا بھی ہے۔حیا کی وجہ سے انسان بہت سے ایسے کام کرنے سے بچ جاتا ہے جو معاشرے میں شرمندگی کا باعث ہوں جبکہ بے حیائی ایک ایسی خامی ہے جو انسان سے بہت سے گناہ اور برے کام کرواتی ہے۔چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹)
(پ18،النور:19)
ترجمہ:بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے۔آخرت کے عذاب سے مراد وہ اگر توبہ کیے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔آیتِ مبارکہ میں تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ کا لفظ ہے۔لفظ فاحشہ سے مراد وہ تمام اقوال و افعال ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے۔([1])
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی بے حیائی کی مذمت کی گئی ہے،چنانچہ ایک روایت میں ہے:پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام کے کلام میں سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے اس میں ایک بات یہ ہے کہ جب تجھے حیا نہ آئے تو تو جو چاہے کر۔([2]) اور ایک روایت میں ہے:اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی یعنی بےحیائی کی بات سے کام لیتا ہے۔([3])
جو شخص نا محرم عورتوں کو جان بوجھ کر دیکھے،ان سے بے تکلف بنے،فلمیں ڈرامے دیکھے،گانے باجے سنے،فحش کلامی، گالم گلوچ کرے وہ بے حیا نہیں بلکہ بے حیا لوگوں کا بھی سردار ہے،اگرچہ وہ حافظ،قاری،راتوں کو اٹھ کر نمازیں پڑھنے والا اور روزہ دار ہو،ان بےحیائی کے کاموں کو کرنے کے سبب اس کی صفتِ حیا اور نیک ہونے کی خوبی کو چھین لیا گیا ۔
بے حیائی کو عام کرنے کے ذرائع و اسباب:(1) کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔(2)حرام کاموں کی ترغیب دینا۔ (3)علمائے اہلسنت سے بتقدیرِ الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو اس کی اشاعت کرنا۔(3)ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔(5)فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کر کے بے حیائی پھیلانا وغیرہ۔ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہیے کہ خدارا!اپنے طرز ِعمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غور کرنا چاہیے جو فحاشی و عریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کرتے نیز بے حیائی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔([4]) اللہ پاک ہمیں بےحیائی سے محفوظ فرمائے اور حیا کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
بنتِ محمد یوسف
(طالبہ:درجہ خامسہ فیضانِ اُمِّ عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ)
بے حیائی ایسا برا کام ہے جو انسان کو فضول کاموں میں مشغول کرتا اور اصلاح و پاکیزگی سے بہت دور لے جاتا ہے۔ بے حیائی انسان کے اخلاقی وجود کو کمینے پن میں ڈھال دیتی ہے اور اسے بہترین تخلیق سے سب سے نچلے درجے میں جا گراتی ہے۔بے حیائی وبدکاری سے منع کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ18،النور:30)
ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
یہ اس سورت کی آیت ہے جو بالخصوص اسلامی معاشرے میں شرم و حیا کی ضرورت و اہمیت،اس کی خلاف ورزی کی مختلف صورتوں،ان کے سنگین نتائج اور سزاؤں کے بیان پر مشتمل ہے۔موجودہ زمانے میں بے پردگی،بے حیائی،نمائش لباس و بدن اور ناجائز زیب و زینت سے بھرپور ماحول میں اس سورت کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے۔اسی لئے حدیثِ پاک میں حکم دیا گیا کہ ”اپنی عورتوں کو سورۂ نور سکھاؤ“۔([5])
اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔جیسا کہ مروی ہے:حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔([6])
بے حیائی کے نقصانات:بے حیا انسان کی غیرتِ ایمانی ختم ہو جاتی ہے اور وہ گناہوں پر بہادر ہو جاتا ہے۔بے حیا انسان کی سوچ و ذہنیت گندی اور اعمال گھٹیا پن کے عادی ہو جاتے ہیں۔بے حیائی رسوائی کا سبب بنتی ہے،بے حیائی کے سبب انسان بد نگاہی، بدکاری و دیگر برے کاموں میں ملوث ہو جاتا ہے۔
بچنے کے طریقے:بے حیائی کی مذمت پر آیات و احادیث اور بزرگوں کے حیا پر مشتمل واقعات کا مطالعہ فرمائیے اور ان کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کیجئے۔سوشل میڈیا سے بچیے کہ یہ بے حیائی کے فروغ کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔بدنگاہی سے بچیے کہ نگاہ پاکیزہ نہ ہو گی تو حیا کا تصور بھی مشکل ہو جائے گا۔نماز کو اس طرح ادا کیجئے جیسے ادا کرنے کا حق ہے کہ نماز بے حیائی اور گناہوں سے روکنے والی ہے،جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ21، العنکبوت: 45)
ترجمہ:بیشک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔
یعنی نماز بے حیائی اور ان چیزوں سے روکتی ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہیں۔([7]) ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی:فلاں آدمی رات میں نماز پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ارشاد فرمایا:عنقریب نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے۔([8]) چنانچہ بے حیائی کی نحوست سے چھٹکارا پانے کے لیے دل کو پاکیزہ کرنے کے طریقے اپنائیے ان شاء اللہ بے حیائی سے حفاظت رہے گی۔
موجودہ معاشرے میں بے حیائی عروج پر ہے،میوزک سے بھرپور فحش پروگرام دیکھے جاتے ہیں،کاروباری مشہوری کے لیے عورتوں کی تصویریں بطورِ نمائش بینرز کی صورت میں لگائی جاتی ہیں۔الغرض عورتوں کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کے تصور نے معاشرے میں ایسا غلیظ بگاڑ پیدا کر دیا ہے کہ عورتیں خود کو مردوں سے بھی زیادہ قابل منوانے کے لیے بے حیائی کی ہر حد پار کرنے لگی ہیں اور مرد اسے جنریشنل چینج (Generational Change)کا نام دے کر بے غیرت ہونے کا عملی ثبوت دے رہے ہیں۔اللہ کریم سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی چادرِ مبارک کے صدقے مسلمان عورتوں کو حیا و پاکیزگی عطا فرمائے۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
Comments