
سلسلہ:اخلاقیات
موضوع:شرم و حیا
*اُمِّ انس عطاریہ
شرم و حیا ایک ایسا اعلیٰ وصف ہے کہ جس انسان میں یہ نہ ہو تو اس کی دیگر اچھی عادات کا بھی کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ شرم و حیا انسان کا زیور ہے بالخصوص اگر عورت اس زیور سے آراستہ ہو تو اس کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔شرم و حیا والی با پردہ خواتین کا ذکر معاشرے میں ان کے وصف کے ساتھ بڑے احترام سے کیا جاتا ہے اور انہیں قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے، جبکہ بےپردہ و بےحیا خواتین کو اچھے نام سے یاد نہیں کیا جاتا، بلکہ بعض اوقات ایسی عورتیں عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔دور چاہے کوئی سا بھی ہو، زمانے میں کتنی ہی تبدیلیاں آ جائیں انداز کتنے ہی بدل جائیں، مگر شرم و حیا کی ہر زمانے، ہر دور اور ہر انداز میں اہمیت رہی ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔چنانچہ شرم و حیا اسلام کی ایک ایسی خوبی ہے جس کا اظہار نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کچھ یوں ارشاد فرمایا کہ ہر دین کا ایک خُلُق ہوتا ہے اور اسلام کا خُلُق شرم و حیا ہے۔([1]) بلاشبہ اس خوبی سے دیگر خوبیوں میں بھی نکھار آتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے:بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔([2])پردہ اور شرم سنتِ انبیاء ہے۔([3])بلکہ اللہ پاک کے پیارے و آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تو کنواری پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔([4])بلاشبہ حیا کا ایمان سے ایک ایسا مضبوط تعلق ہے کہ جس کے متعلق مروی ہے:جب ان میں سے ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔([5])
حیا کیا ہے؟شرم و حیا اس خوبی کو کہتے ہیں جو کسی کو ہر اس چیز سے روک دے جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو۔شرم و حیا تمام عادات کو شامل ہے، کلام، انداز، معاملات، لباس یہاں تک کہ اعضا کے اشاروں میں بھی شرم و حیا اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ اشارے بھی اگر شرم و حیا سے خالی ہوں تو انسانی کردار پر دھبہ بن جاتے ہیں۔
شرم و حیا کے فوائد:حیا بھلائی ہی لاتی ہے۔([6])یہ غیرت و حمیت کی علامت اور مسلمانوں کا وصف جبکہ بے حیائی غیرت کو ختم کرتی اور غیر مسلموں کا وصف ہے۔شرم و حیا فطرت کا تقاضا اور تہذیب کی بلندی ہے۔حیا سے معاشرہ مہذب و پاکیزہ اور خوشگوار ہو جاتا ہے اور خواتین کی عصمت محفوظ ہو جاتی ہے۔حیا فرمانبردار بناتی ہے،گناہوں سے باز رکھتی ہے،ادب و احترام سکھاتی ہے،معاشرتی برائیوں سے بچاتی ہے،پردہ دار بناتی ہے،غیرت بڑھاتی ہے،خاندانوں میں محبت لاتی اور لوگوں کا محبوب بناتی ہے۔
حیا کس سے کی جائے؟حیا کا سب سے زیادہ حق دار اللہ پاک ہے اور چونکہ اللہ پاک سے کچھ بھی چھپا نہیں ، اس لیے ہر حال میں حیا روحانی ہو یا جسمانی اسی سے کرنا اس کا حق ہے۔ روحانی حیا یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے اور اعضائے بدن کو گناہوں سے بچایا جائے۔جیسا کہ ایک روایت میں ہے:اللہ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور جو کچھ اس میں ہے (یعنی دماغ، آنکھ، ناک، کان، منہ، زبان)اسی طرح پیٹ اور جو کچھ اس میں ہے(یعنی دل، معدہ اور شرمگاہ وغیرہ) اس کی حفاظت کی جائے موت اور قبر کو کثرت سے یاد رکھا جائے۔([7]) جبکہ جسمانی حیا یہ ہے کہ اپنے اعضائے بدن کو ڈھانپ کر رکھا جائے اور بلا ضرورت نہ کھولا جائے، جیسا کہ مروی ہے:اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو(کسی کے سامنے نہ کھولو) سوائے اپنی بیوی اور باندی کے، عرض کی گئی:یا رسول اﷲ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا تنہائی میں بھی(شرم گاہ نہ کھولی جائے)؟ارشاد فرمایا:اللہ پاک اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔([8])
اللہ پاک کے بعد ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ ہم امتی ہونے کے ناطے اپنے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے حیا کریں اور یہ سوچیں کہ اگر ہم نے اپنے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرامین پر عمل نہ کیا تو بروزِ محشر ان کو کیا منہ دکھائیں گی!
دن لہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوف ِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
اسی طرح * اپنے والدین سے حیا کیجیے اور ان کے سامنے نگاہیں جھکا کر ادب سے بات کیجئے، ان کا ہر وہ کام جو خلافِ شرع نہ ہو فوراً کیجئے۔* اپنے شوہر سے حیا کرتے ہوئے ان کا ادب کیجیے،انہیں نام کے بجائے کنیت کے ساتھ یا کسی بہتر طریقے سے مخاطب کیجئے، ان کے سامنے بلند آواز سے گفتگو نہ کیجیے پھر دیکھئے آپ کے گھر میں اس حیا کی کتنی زبردست خوشبو پھیلے گی۔* اپنی ٹیچرز سے حیا کیجیے،حیا کی وجہ سے ان کی نشست گاہ پر نہ بیٹھئے،انہیں ادب سے پکارئیے،سوال جواب میں ادب کو ملحوظ رکھئے،پھر دیکھئے علم کی خوشبو سے دل و دماغ کیسے معطر ہوتے ہیں۔* حیا کے باعث مسلمانوں کی غیبت سے بچئے،ان کی جان،مال،عزت اور آبرو کو اپنے اوپر حرام جانئے ان شاء اللہ اس کی برکت سے معاشرے میں حیا کے پھول کھلیں گے اور ہر طرف بہار ہو گی۔
ہماری بزرگ خواتین شرم و حیا کی پاسدار تھیں،مگر افسوس!اب خواتین کو حیا کرتے ہوئے حیا آتی ہے۔پردہ کرنے کا کہا جائے تو کہتی ہیں:شرم آتی ہے۔اسی طرح نظریں جھکا کے بات کرتے ہوئے بھی انہیں شرم آتی ہے اور مردوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔اس کے علاوہ شیطان مردود کے بہکاوے میں آ کر اور بھی بہت سے نیک کام یہ سوچ کر نہیں کر پاتیں کہ شرم آتی ہے۔ایسی بلاوجہ کی شرم و حیا دین و آخرت کے لیے تباہ کن ہے،لہٰذا شیطان کے اس وار کو ناکام بناتے ہوئے ہر وہ جائز کام کرنے کی کوشش کیجئے جو کرنے کے ہیں۔مگر افسوس! معاشرے میں بے حیائی کو فروغ مل رہا ہے اور فحش ناولز پڑھنا، بازاری گفتگو کرنا،گانے باجے سننا، فلمیں ڈرامے دیکھنا،چست لباس پہننا،نیز انداز،آواز، اشاروں اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال یہ سب بے حیائی کو فروغ دینے والے اسباب ہیں۔یاد رکھئے!بے حیائی کے انہی اسباب کی وجہ سے آج کی خواتین کی چال میں حیا ہے نہ انداز و لباس میں اور نہ گفتار میں۔اسی لیے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو تُو جو چاہے کر۔([9])حیا کے خاتمے کی وجہ سے معاشرے سے سکونِ دل رخصت ہو رہا ہے، ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں، خود کشی عام ہو رہی ہیں اور عزتیں لٹ رہی ہیں۔حالانکہ اگر خواتین حیا اپنانے کا پکا ارادہ کر لیں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں، بلکہ اس کی سب سے پہلی سیڑھی پردے کا اہتمام ہے،لہٰذا ہمت کیجیے اور اپنی بزرگ خواتین کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کیجئے کہ جن کے متعلق کسی نے کہا ہے:
یہی مائیں ہیں جن کی گود میں اسلام پلتا ہے
اسی غیرت سے انساں نور کے سانچے میں ڈھلتا ہے
پردہ اور شرم و حیا سے متعلق تفصیلی معلومات جاننے کے لیےمکتبۃ المدینہ کی کتاب پردے کے بارے میں سوال جواب کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔اللہ پاک تمام مسلم خواتین کو شرم و حیا کی توفیق نصیب فرمائے۔
اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ
Comments