برائی سے نہ روکنا (قسط 2)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ:تفسیرِ قرآنِ کریم

موضوع:برائی سے نہ روکنا (قسط 2)

*اُمِّ حبیبہ عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ سے پیوستہ:سورۂ مائدہ کی آیت نمبر  78 اور 79 کی تفسیر میں بیان ہوا کہ بنی اسرائیل پر اللہ پاک نے اپنے انبیائے کرام کی زبان سے لعنت فرمائی، جس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے برائی کو دیکھ کر اس سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔مداہنت بھی چونکہ خلافِ شرع چیز دیکھ کر باوجودِ قدرت منع نہ کرنے کو کہتے ہیں، لہٰذا اس سے متعلق کچھ باتیں پیشِ خدمت ہیں:

مداہنت

حدود اللہ میں مداہنت کرنے اور اُن میں مبتلا ہونے والے کی مثال اُن لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں نیچے والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں اوپر والا،نیچے والوں کو پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس جانا ہوتا تھا تو انہوں نے ا سے زحمت شمار کیا،پھر ایک شخص نے ایک کلہاڑی لی اور کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا تو اوپر والے اس کے پاس آئے اور کہا:تجھے کیا ہو گیا ہے؟کہا:تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور میرا پانی کے بغیر گزارا نہیں۔اب اگر انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اسے بچا لیا اور خود بھی بچ گئے اور اگر اسے چھوڑے رکھا تو اسے بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہوئے۔([1])

یاد رکھئے!چند موقعوں پر عام مصیبت آ جاتی ہے جس میں قصور وار اور بے قصور سب گرفتار ہو جاتے ہیں:(1)جبکہ کچھ لوگ گناہ کریں، باقی لوگ ان کے گناہ سے راضی ہوں۔(2) جبکہ عام لوگ گناہ کریں اور دوسرے لوگ قادر ہوتے ہوئے انہیں منع نہ کریں۔(3)جبکہ بہت بھاری اکثریت گناہوں میں گرفتار ہو جائے اور بہت کم لوگ بچے رہیں۔([2]) یہ سب مداہنت ہی کی صورتیں ہیں اور ایسا کیوں کیا جاتا ہے، اس کے تین اسباب ہیں:

(1)جہالت:انسان جب نیکی کی دعوت دینا اور بُرائی سے منع کرنے کی مختلف صورتوں کے بارے میں علم حاصل نہیں کرتا تو مداہنت  یعنی بُرائی دیکھ کر اسے منع کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود منع نہ کرنے جیسے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔لہٰذا اس پر لازم ہے کہ ان  تمام صورتوں کا علم حاصل کرے جن میں بُرائی دیکھ کر اس کو روکنا ضروری ہے۔

(2) رشتہ داری:بُرائی کا مرتکب قریبی رشتہ دار  ہو تو بھی بسا اوقات قدرت کے باوجود اسے برائی سے نہیں روکا جاتا، حالانکہ شریعت نے ہمیں اس بات کا پابند کیا ہے کہ اپنے رشتہ داروں کو بھی اللہ پاک کی نافرمانی سے بچائیں۔

(3) دنیوی غرض:کسی دنیاوی غرض کی وجہ سے بُرائی سے منع نہ کرنا بھی مداہنت کی ہی صورت ہے، حالانکہ ہمیں دنیا کے بجائے آخرت کے مقاصد کو یاد رکھنا چاہیے اور فانی دنیا کو چھوڑ کر اخروی ثواب پر نظر رکھنی چاہیے۔

حضرت ابو دردا رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:ضرور تم نیکی کا حکم دیتے رہنا اور ضرور تم بُرائی سے روکتے رہنا یا اللہ پاک تم پر ایسا ظالم حاکم مقرر کر دے گا جو تمہارے بڑوں کا احترام نہیں کرے گا،تمہارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرے گا،تمہارے بہترین لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعا قبول نہیں کی جائے گی،وہ مدد گار طلب کریں گے مگر ان کی مدد نہیں کی جائے گی اور وہ بخشش طلب کریں گے مگر انہیں نہیں بخشا جائے گا۔([3]) اسی طرح کی ایک حدیثِ پاک کے تحت امام محمد غزالی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مراد یہ ہے کہ بُرے لوگوں کی نظروں سے نیک لوگوں کی جلالت و ہیبت ختم ہو جائے گی تو وہ ان سے نہیں ڈریں گے۔([4])

ایک روایت میں ہے:اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے!میری اُمَّت میں سے بعض لوگ اپنی قبروں سے بندر اور خنزیر کی شکل میں اٹھیں گے،یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے گناہگاروں کے ساتھ مداہنت سے کام لیا اور قدرت رکھنے کے باوجود انہیں گناہوں سے منع نہ کیا۔([5]) ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی:یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا ایسی بستی بھی ہلاک ہو سکتی ہے جس میں نیک لوگ موجود ہوں؟ارشاد فرمایا:ہاں۔عرض کی گئی:کس سبب سے؟ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی نافرمانیوں پر ڈھیل دینے اور خاموشی اختیار کرنے کی وجہ سے۔([6]) جیسا کہ اللہ پاک نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ بے شک میں آپ کی قوم کے ایک لاکھ آدمی عذاب سے ہلاک کروں گا، جن میں 40 ہزار نیک ہیں اور ساٹھ ہزار بُرے۔آپ نے عرض کی:اے ربّ کریم!تو برے لوگوں کو تو ہلاک فرمائے گا،لیکن نیک لوگوں کا کیا قصور ہے؟ارشاد فرمایا:یہ نیک لوگ بروں کے ساتھ کھاتے پیتے اور میری نافرمانیاں دیکھ کر غضبناک نہیں ہوتے۔([7]) یہ اصول ایک روایت میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:جس قوم میں کوئی شخص گناہ کرتا ہو اور لوگ اسے بدلنے پر قادر ہوں پھر بھی نہ بدلیں تو اللہ پاک موت سے پہلے اُن پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا۔([8]) یعنی بُرائی کو بدلنے میں کوتاہی کرنا دوسرے جرائم کے مقابلے میں اس لحاظ سے منفرد ہے کہ دوسرے گناہوں کی سزا آخرت میں ملے گی جب کہ اس کوتاہی کی سزا دنیا میں بھی ملے گی اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہو گا۔([9]) کیونکہ اللہ پاک عام لوگوں کو خاص لوگوں کے عمل کے باعث عذاب نہیں دیتا یہاں   تک کہ وہ اپنے سامنے بُرے کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے روکنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں لیکن نہ روکیں اگر انہوں نے ایسا کیا تو اللہ پاک عام اور خاص سب کو عذاب دے گا۔([10]) یعنی جب کسی قوم میں سے کچھ افراد بُرائی کریں تو اس کا عذاب صرف انہی کو ہو گا،قوم کے دوسرے افراد کو نہیں، کیونکہ ارشادِ باری ہے:

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۙ(۳۸) (پ27،النجم:38)

ترجمہ:کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

البتہ جب ان کے سامنے بُرائی ہو رہی ہو اور وہ روکنے پر قادر ہونے کے باوجود ان کو نہ روکیں تو اب سب کو عذاب ہو گا اور یہ ارشادِ خداوندی کے خلاف نہیں ہے کیونکہ گناہ کرنے والوں کو ان کے عمل کی سزا ملے گی اور دوسرے اس لیے سزا کے مستحق ہوئے کہ انہوں نے بُرائی کو روکنے سے متعلق اپنی ذمہ داری کو پورا نہ کر کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔([11]) اور اس جرم کی سزا کے متعلق حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: جو کوئی سنے کہ فلاں شخص نے گناہ کیا، پھر باوجود ِ قدرت وہ اُس گناہ کرنے والے کو نہ روکے تو قیامت کے روز وہ کٹے ہوئے کانوں والا بہرا ہو گا۔([12]) اور ایک قول کے مطابق کسی قوم میں عزت والے لوگ ایسی بُرائی کو نہ روکیں جسے روکنے پر وہ قدرت رکھتے ہوں تو اللہ پاک اُن کو ذلیل کر دیتا ہے۔([13])

فی زمانہ مسلمانوں کی ایک بھاری تعداد روحانی و جسمانی اور سماجی و معاشی طرح طرح کی پریشانیوں کا شکار ہے، کہیں نیکی کی دعوت چھوڑنے کے سبب تو یہ حال نہیں؟آپ خود نیکو کار ہی سہی مگر دوسروں کو نیکی کی دعوت نہیں دیتیں اور باوجودِ قدرت گناہوں سے نہیں روکتیں،عام مسلمانوں بلکہ اپنے گھر والوں کو برائیوں میں مبتلا دیکھ کر جی میں کڑھتی نہیں تو اس روایت سے عبرت حاصل کیجئے:اللہ پاک نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ فلاں شہر کو اُس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو!انہوں نے  عرض کی:اے ربّ کریم!ان لوگوں میں تیرا ایک فلاں نیک بندہ بھی ہے جس نے پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔اللہ پاک نے فرمایا:شہر ان پر الٹ دو کیونکہ اس کے چہرے پر میری نافرمانیاں دیکھ کر لمحہ بھر کیلئے بھی ناگواری طاری نہ ہوئی۔([14])  یعنی جہاں اعمالِ صالحہ (نیکیوں) سے تعلق اور برائیوں سے اجتناب ضروری ہے وہاں دین و ملت کے خلاف سازشوں اور مسلمانوں پر ظلم و ستم نیز معاشرتی بگاڑ کی وجہ سے پریشان ہونا بھی ایمان کا تقاضا ہے۔جو لوگ اللہ پاک کی رضا جوئی کی خاطر معاشرتی برائیوں کے اِزالے (خاتمے)کے لیے کوشاں نہیں رہتے اور عدمِ طاقت (قوّت نہ ہونے)کی صورت میں اس پر پریشان بھی نہیں ہوتے ان کا تقویٰ کس کام کا!لہٰذا اپنی اِصلاح اور عبادتِ خداوندی میں مشغولیت کے ساتھ ساتھ ملک و ملّت اور مسلمانانِ عالَم کی زبوں حالی کے خاتمے اور معاشرے کو غیر شرعی حرکات و سکنات سے پاک کرنے کے لیے کوشاں رہنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔([15])

برائی سے منع کرنا کس پر لازم نہیں؟علامہ محمد بن عَلَّان شافعی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جب لوگ ظالم کو ظلم یا گناہ کرتا دیکھیں اور اسے ہاتھ سے روکنے پر قدرت ہونے کے باوجود نہ روکیں یا زبان سے منع نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ پاک ان سب پر عذاب نازل فرما دے، ظالم پر تو ظلم کرنے کی وجہ سے اور اس کے علاوہ لوگوں پر قدرت ہونے کے باوجود اسے نہ روکنے کی وجہ سے، البتہ جو لوگ گناہگار کو روکنے سے عاجز ہوں اس طور پر کہ انہیں اپنی جان یا مال کے ضائع ہونے کا خوف ہو یا اس بات کا خطرہ ہو کہ اگر یہ اسے منع کریں گے تو وہ رکنے کے بجائے اس سے بڑے گناہ میں پڑ جائے گا، تو ایسے لوگوں کو بُرائی سے نہ روکنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ معذور ہیں اور اللہ پاک کے فضل سے یہ عذاب سے محفوظ رہیں گے کیونکہ اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ- (پ3،البقرۃ:286)

ترجمہ:اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔([16])

 بعض لوگ نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے کے اہم ترین کام کو لوگوں کے غلط رویوں کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔یاد رکھئے!نیکی کی دعوت دینے کے لئے ضروری نہیں کہ پہلے خود نیک بن جائیں تو ہی کسی اور کو نیکی کی دعوت دیں بلکہ بُرائی سے روکتے رہنا چاہیے اگرچہ خود مکمل طور پر گناہوں سے کنارہ کشی نہ ہو سکے۔چنانچہ

حضرت انس رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں:ہم نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا ہمیں نیکی کا اس وقت حکم کرنا چاہیے جب ہم مکمل طور پر نیکیوں پر عمل کریں اور برائیوں سے اس وقت روکنا چاہیے جب ہم مکمل طور پر برائیوں سے رک جائیں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم نیکیوں کا حکم دیتے رہو اگرچہ مکمل طور پر عمل نہ کر سکو اور برائیوں سے روکتے رہو اگرچہ مکمل طور پر ان سے بچ نہ سکو۔([17])

برائی سے روکنا کب ضروری ہے؟یاد رہے!جہاں کوئی شخص کسی بُرائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہو جاتا ہے۔چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے جو بُرائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان کے ذریعے روکے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔([18])

اللہ پاک ہمیں بھی بُرائی سے منع کرنے کی توفیق عطا فرما کر بُرائی سے نہ روکنے کے وبال سے محفوظ رکھے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز فیضانِ اُمِّ عطار  گلبہار سیالکوٹ



[1] بخاری،2/208،حدیث:2686

[2] تفسیر ِنعیمی،9/514

[3] الکشف و البیان، 3/123

[4] احیاء العلوم،2/379

[5]تفسیر دُرِّمنثور،3/ 127

[6] معجم كبير،11/ 216،حديث:11702

[7] شعب الایمان،7/53،رقم:9428

[8] ابوداود،4/ 163،حدیث:4339

[9] مراٰۃالمناجیح،6/507 مکتبہ اسلامیہ

[10] مسند امام احمد، 29/ 258،حدیث:17720

[11] مراۃ المناجیح،6/512مکتبہ اسلامیہ

[12] نبیہ المغترین، ص236

[13] تنبیہ المغترین،ص236

[14] شعب الایمان،6/97، حدیث:7595

[15] Eمراٰۃ المناجیح،6/516مکتبہ اسلامیہ

[16] دلیل الفالحین، 1/488،تحت الحدیث: 198

[17] Gمعجم اوسط،5/77،حدیث:6628

[18] مسلم،ص49،حدیث:177


Share