حضور کی اپنے والدین سے محبت
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ:فیضانِ سیرتِ نبوی

موضوع:حضور  کی اپنے والدین  سے محبت

(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 31ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بِنتِ       محمد ریاض(اول پوزیشن)

(طالبہ:درجہ خامسہ، فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ کنگ سہالی گجرات)

دنیا میں موجود تمام مخلوقات کا اپنے والدین سے محبت کرنا ایک فطری معاملہ ہے، پھر وہ نبی کہ جن کے  مخلوقِ خدا سے محبت فرمانے پر قرآنی آیات گواہ ہیں وہ اپنے والدین سے کس قدر محبت فرماتے ہوں گے!یہ بات یقیناً بیان سے باہر ہے کیونکہ تمام مخلوقات کو اپنے والدین سے محبت اور نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم ہی اس پاک بارگاہ سے عطا ہوا  ہے۔حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے والدِ محترم حضرت عبدُ اللہ کا وصال حضور کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی ہو چکا تھا اور جب حضور کی عمر مبارک 5 یا 6 برس ہوئی تو والدۂ محترمہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ ُعنہا کا بھی انتقال ہو گیا۔حضور کو اپنے والدین سے کس قدر محبت تھی اس کا اندازہ امام شمس ُالدِّین انصاری قرطبی رحمۃ اللہِ علیہ کی نقل کردہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ ُعنہا نے ارشاد فرمایا: حَجّۃُ الْوَداع کے موقع پر اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے ساتھ حجون(مکے شریف کے اوپری حصے میں واقع ایک پہاڑ ہے،اس کے پاس مکے والوں کا قبرستان ہے۔([1])اب اسے جَنَّتُ الْمَعْلٰی کہا جاتا ہے)کی گھاٹی سے گزرے تو رنج و غم میں ڈوبے ہوئے رونے لگے،حضور کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔پھر حضور اپنی اونٹنی سے نیچے تشریف لائے اور مجھے ٹھہرنے کا فرما کر کافی دیر مجھ سے دور رہے،پھر آپ میرے پاس  خوش خوش مسکراتے ہوئے واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!آپ پر میرے ماں باپ قربان!آپ روتے ہوئے غمزدہ آئے تھے مگر اب خوش خوش مسکراتے ہوئے واپس تشریف لائے ہیں،یہ کیا ماجرا ہے؟ارشاد فرمایا:میں اپنی والدہ سیِّدہ آمِنہ رضی اللہ ُعنہا کی قبر کے پاس سے گزرا تو میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ وہ انہیں زندہ فرما دے تو اللہ پاک نے انہیں زندہ فرما دیا اور وہ مجھ پر ایمان لائیں یا فرمایا کہ وہ ایمان لائیں، پھر اللہ پاک نے انہیں واپس(پہلی حالت پر) لوٹا دیا۔([2])

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت کو حضور کے صدقے بے شمار فضائل عطا کئے گئے تو حضور نے اپنے والدین سے محبت کی بدولت یہ چاہا کہ ان فضائل سے وہ بھی حصہ پائیں، لہٰذا ان کو اپنی امت میں شامل کرنے کے لیے آپ نے دعا مانگی:اے اللہ!میرے والدین کو زندہ فرما دے۔اللہ کریم نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دعا کو قبول فرما کر ان دونوں کو زندہ کر دیا،وہ دونوں اللہ کریم کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ایمان لائے اور واپس انتقال فرما گئے۔([3])

آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی والدہ سے کس قدر محبت فرماتے ہیں اس کے متعلق مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:آمنہ خاتون رضی اللہ ُعنہا ایک مرتبہ اپنے ننھیال مدینہ منورہ گئیں حضور ساتھ تھے،واپسی پر مقام ابوا میں بیمار ہوئیں اور وہاں ہی وفات پا گئیں،اس بیماری میں حضور آپ کا سر دباتے اور روتے جاتے تھے،حضور کے آنسو آپ کے چہرے پر گرے تو آنکھ کھولی اور اپنے دوپٹے سے آپ کے آنسو پونچھ کر بولیں:دنیا مرے گی مگر میں کبھی نہیں مروں گی، کیونکہ تم جیسا فرزند میں چھوڑ رہی ہوں جس کی وجہ سے مشرق و مغرب میں میرا چرچا رہے گا۔اس ولیۂ وقت کا یہ قول نہایت درست ہوا۔([4])ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک بار اپنی والدہ کی مبارک قبر پر تشریف لے گئے  تو اپنی والدہ کی شفقت و مہربانی یاد آنے پر آپ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔([5])

والدینِ مصطفےٰ کے متعلق عقیدہ:

کثیر اکابر علما کا مذہب یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیارے والدین نجات یافتہ ہیں اور آخرت میں ان کی نجات کا فیصلہ ہو چکا ہے۔([6])  بعض بد مذہب معاذَ اللہ حضور کے والدین کرام کے بارے میں اپنی زبانیں دراز کرتے اور ان کی شان میں نا مناسب کلمات کہتے ہیں حالانکہ ہمیں اس عقیدے پر جمے رہنا چاہیے کہ حضور کے پیارے والدین مسلمان ہیں۔جیسا کہ قاضی امام ابوبکر ابنِ عربی مالکی رحمۃ اللہِ علیہ سے سوال کیا گیا  کہ ایک شخص کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آباؤ اجداد آگ میں ہیں معاذ اللہ،تو آپ نے فرمایا:ایسا بکنے والا شخص لعنتی ہے۔([7])

اللہ کریم ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی غلامی میں قبول فرمائے اور ہمارے عقائد کی ہمیشہ حفاظت فرمائے۔آمین

بنتِ        ملک شاہد علی

(طالبہ:فیضان شریعت لیول ون، جامعۃ المدینہ گرلز معراجکے سیالکوٹ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے والد ماجد کا نام عبد اللہ  یعنی اللہ کا بندہ ہے۔عبد سے عبادت اور بندگی کی طرف معنی جاتا ہے جبکہ والدہ محترمہ کا نام آمنہ ہے جس کے معنی سے امن و سکون اور پیار و محبت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔گویا ان دونوں ناموں کے معانی کو جمع کریں تو اللہ پاک کی عبادت اور امن و سکون نتیجہ نکلتا ہے۔پھر ان کے وجودِ گرامی سے جس ہستی کی ولادتِ با سعادت ہوئی وہ پوری کائنات کے لئے اللہ پاک کی عبادت اور امن و سکون کا پیغام لے کر آئی یعنی ہمارے آقا سارے جہاں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے۔([8])حضور کے والدین حسب و نسب کے اعتبار سے کتنے عظیم تھے، اسے جاننے کے لئے یہ فرمانِ مصطفےٰ ہی  کافی ہے کہ میں عرب کے دو سب  سے افضل قبیلوں ہاشم و زُہرہ سے پیدا ہوا۔([9]) یعنی حضور کا  تعلق  ماں باپ کی طرف سے جن دو قبیلوں سے تھا وہ اس وقت سب سے  افضل تھے۔

حضور کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد ماجد دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور والدہ ماجدہ بھی زیادہ عرصہ ساتھ نہ رہیں،لیکن جو تھوڑا سا وقت ملا اس کی یادیں ہمیشہ حضور کے ساتھ رہیں، مثلاً مدینے شریف میں مہینا بھر قیام کے دوران جو واقعات پیش آئے حضور بعدِ ہجرت بسا اوقات ان کی یادوں کو تازہ فرمایا کرتے تھے۔مثلاً جب اس مکان کو دیکھتے جہاں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ قیام کیا تھا تو فرماتے:یہی وہ مکان ہے جس میں میری والدہ نے قیام کیا تھا، میرے والد ماجد کو بھی دفنا یا گیا تھا اور فرماتے!میں نے   بنو عدی بن نجار کے تالاب میں تیرنے کی مہارت حاصل کی تھی۔([10])جبکہ سیدہ آمنہ رضی اللہ ُعنہا   کو اپنے لختِ جگر سے کس قدر محبت تھی، اس کا اظہار انہوں نے اپنے آخری الفاظ میں یوں فرمایا:ہر زندہ کو مرنا ہے اور ہر نئے کو پرانا ہونا اور کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن فنا ہونا ہے۔میں مرتی ہوں اور میرا ذکر ہمیشہ خیر سے رہے گا،میں کیسی خیر عظیم چھوڑ چلی ہوں اور کیسا ستھرا پاکیزہ مجھ سے پیدا ہوا۔یہ کہا اور انتقال فرمایا، ان کی یہ فراستِ ایمانی اور پیشن گوئی نورانی قابل غور ہے کہ میں انتقال کرتی ہوں اور میرا ذکر خیر ہمیشہ باقی رہے گا۔عرب و عجم کی ہزاروں شہزادیاں، بڑی بڑی تاج والیاں خاک کا پیوند ہوئیں جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا، مگر اس طیبہ خاتون کے ذکر خیر سے مشارق مغارب ارض میں محافل مجالس انس و قدس میں زمین و آسمان گونج رہے ہیں اور ابد الآباد تک گونجیں گے۔([11])




[1]معجم البلدان،2/ 123

[2] التذکرۃ ،ص19،18

[3] الروض الانف، 1/299

[4] مراۃ المناجیح،2/523

[5] سیرۃ حلبیہ ،1/ 154

[6] فتاویٰ رضویہ، 30/299 ملخصاً

[7] تفسیر روح البیان، 1/218

[8] خاندانِ مصطفےٰ،ص189ملخصاً

[9] تاریخ ابن عساکر،  3/401

[10] طبقات ابن سعد ، 1 / 94،93

[11] فتاویٰ رضویہ،30/303


Share

Comments (1)


Security Code

test

اکجسدھ ککجا سکجدھ کاسھدکج اسدھاسد