سلسلہ:شرحِ حدیث
موضوع:نجومیوں کے پاس جانا کیسا؟(تیسری اور آخری قسط)
*بِنتِ کریم عطاریہ مدنیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:علم نجوم اور اس کی اقسام و مختلف صورتوں کے جائز و ناجائز ہونے کا بیان جاری ہے۔چنانچہ اسی سلسلے میں مزید کچھ مفید باتیں پیش خدمت ہیں:
امام محمد غزالی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:یہ کہنا کہ اللہ پاک نے ستاروں،سورج اور چاند کو بطورِ اسباب فلاں فلاں حکمت کے تحت پابند فرمایا ہے درست نہیں اور اس پر ایمان لانا خلافِ شریعت ہے۔کیونکہ حدیثِ پاک میں نجومیوں اور عِلمِ نجوم کی باتوں کی تصدیق کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس ممانعت کے سلسلے میں دو چیزیں ہیں:(1)ستارے خود بخود سب کام انجام دیتے ہیں اور یہ اللہ پاک کی تدبیر کے تحت نہیں۔یہ عقیدہ کفر ہے۔(2)نجومیوں کی بتائی ہوئی باتوں کو جنہیں لوگ سمجھ نہیں پاتے صحیح سمجھنا بھی غلط ہے، کیونکہ ان کی بتائی ہوئی باتیں لا علمی پر مبنی ہوتی ہیں۔عِلمِ نجوم ایک نبی (حضرت ادریس)کو بطورِ معجزہ عطا کیا گیا تھا اور ا ن کے بعد یہ علم ختم ہو گیا اب جو کچھ باقی ہے اس میں(غلط کی)ملاوٹ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے صحیح غلط کی تمیز نہیں رہی۔چنانچہ اگر کوئی شخص ستاروں کے اثرات کو اس عقیدے کے ساتھ مانتا ہے کہ یہ اللہ پاک کی حکمت و تدبیر کے سبب زمین، نباتات اور حیوانات پر اثر انداز ہوتے ہیں تو یہ عقیدہ دین میں خرابی پیدا نہیں کرتا بلکہ یہ عقیدہ درست ہے، البتہ اگر کوئی نہ جاننے کے باوجود یہ دعویٰ کرے کہ وہ ستاروں وغیرہ کی علامات کو مکمل طور پر جانتا ہے تو جہالت پر مشتمل یہ دعویٰ دین کی خرابی کا سبب ہے۔([1])چنانچہ،
تین وجوہات کی وجہ سے عِلمِ نجوم سیکھنا منع ہے:
* علمِ نجوم اکثر مخلوق کو نقصان پہنچاتا ہے، کیونکہ جب ان تک یہ بات پہنچے گی کہ یہ علامات(بارش وغیرہ)ستاروں کے چلنے کے وقت پیدا ہوتی ہیں تو ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ ستارے مُؤثِّرِ حقیقی ہیں۔
* ستاروں کے احکام صرف اندازے پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ یعنی علمِ نجوم حضرت ادریس علیہ السلام کا معجزہ تھا اور اب یہ علم مٹ چکا ہے۔
* اس علم کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا اور اس سے بچنا ممکن نہیں۔([2])
قسمت کا حال معلوم کرنا کیسا؟بہت سے لوگ کاہنوں، نجومیوں وغیرہ کے ہاں جا کر قسمت کا حال معلوم کرتے ہیں، اپنا ہاتھ دکھاتے ہیں، فال نکلواتے ہیں اور پھر اس کے مطابق آئندہ زندگی کا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں، شرعاً یہ منع ہے۔جیسا کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: شرع میں نجومیوں کا قول نا مقبول و غیر معتبر ہے۔اس پر بھروسا نہیں کر سکتے۔حضور ،صحابہ کرام و تابعین،اگلے پچھلے بزرگوں نے اس پر عمل کیا نہ اعتبار فرمایا۔([3])
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ اس حوالے سے فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:کاہنوں اور جوتشیوں (نجومیوں)سے ہاتھ دکھا کر تقدیر کا بھلا بُرا دریافت کرنا (پوچھنا) اگر بطورِ اعتقاد ہو یعنی جو یہ بتائیں حق ہے، تو کفر خالص ہے،اسی کو حدیث میں فرمایا:فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ([4])بے شک اس نے انکار کیا جو کچھ حضور علیہ الصلوۃ و السلام پر اتارا گیا اور اگر بطورِ اعتقاد و تَیَقُّن نہ ہو، مگر میل و رغبت کے ساتھ ہو تو گناہِ کبیرہ ہے، اسی کو حدیث میں فرمایا:لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ لَهُ صَلَاةً اَرْبَعِينَ صَبَاحًا([5])اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ فرمائیگا اور اگر ہَزْل و اِسْتِہْزَاء(ہنسی، مذاق اڑانے کے طور پر)ہو تو عَبَثْ(فضول)و مکروہ حماقت ہے،ہاں!اگر بقصدِ تَعْجِیْز (عاجز کرنے کے لیے) ہو، تو حرج نہیں۔([6])
یہ معاملہ اگر قسمت کا حال معلوم کرنے تک ہوتا تو بات کچھ اور تھی، مگر اب یہ معاملہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس جدید دور میں بہت سے لوگ ہاتھوں کی لکیروں پر اندھا اعتقاد رکھنے لگے ہیں۔مثلاً جاپان میں تو لوگوں کو ہاتھوں کی لکیروں پر اتنا یقین ہے کہ انہوں نے اپنی قسمت کی لکیروں کو بدلنے کے لئے ہتھیلیوں کی سرجری کرانا شروع کروا دی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مرد حضرات تو سرجری کے ذریعے ہاتھوں پر لمبی دولت کی لائنیں بنواتے ہیں جبکہ خواتین کی خواہش شادی کی بڑی لکیر ہوتی ہے۔([7]) چنانچہ،
اسلام نے برائی کا راستہ بند کرنے کے لئے ایسے لوگوں کے پاس جانے سے ہی منع کیا ہے جو اس قسم کا علم جاننے کے دعوے دار ہیں۔مثلاً ایک روایت میں ہے:جو کوئی نجومی کے پاس جائے پھر اس سے کچھ پوچھے تو اس کی چالیس شب کی نمازیں قبول نہ ہوں گی۔([8])
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:اسے(نجومی کو)سچا سمجھ کر اس سے آئندہ غیبی خبریں پوچھنے کے لیے گیا اس کی وہ سزا ہے جو یہاں ذکر کی گئی ہے، لیکن اگر کوئی اسے جھوٹا سمجھ کر لوگوں کو اس کا جھوٹ ظاہر کرنے کے لیے اس کے پاس گیا اس سے کچھ پوچھا تاکہ اس کی جھوٹی خبر لوگوں کو سنا دے اس کی یہ سزا نہیں۔چالیس شب کی نمازیں قبول نہ ہوں گی؛ کے تحت مفتی صاحب لکھتے ہیں: اس کی یہ نمازیں ادا ہو جائیں گی، اللہ پاک کے ہاں ان کا ثواب نہ ملے گا جیسے غصب شدہ زمین میں نماز کہ اگرچہ ادا تو ہو جاتی ہے مگر اس پر ثواب نہیں ملتا، لہٰذا ان نمازوں کا لوٹانا اس پر لازم نہیں۔خیال رہے کہ نیکیوں سے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں مگر گناہوں سے نیکیاں برباد نہیں ہوتیں وہ تو صرف ارتداد سے برباد ہوتی ہیں اور جب نمازیں ہی قبول نہ ہوئیں تو دوسری عبادتیں بھی قبول نہ ہوں گی بعض شارحین نے فرمایا کہ 40 راتوں کی نمازوں سے مراد تہجد کی نمازیں ہیں۔فرائض و واجبات قبول ہو جائیں گے مگر حق یہ ہے راتوں سے مراد دن و رات سب ہیں اور کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔بہرحال نجومیوں سے غیب کی خبریں پوچھنا بدترین گناہ ہے۔([9])
البتہ!ایک قول کے مطابق ستاروں کا اتنا علم حاصل کرنے کی اجازت ہے جس سے خشکی اور تری کے اندھیرے میں راہ نمائی حاصل کی جا سکے۔([10]) اور ایک قول کے مطابق یہ علم اتنا ہی سیکھنے کی اجازت ہے جس کے ذریعے قبلہ اور راستے کی پہچان ہو سکے۔([11])
علم نجوم جاننے والوں کی حقیقت سے متعلق تین واقعات
نجومی کی بات اگر کبھی درست ہوتی بھی ہے تو وہ اتفاقی ہے کیونکہ نجومی بسا اوقات ایک سبب پر آگاہ ہوتا ہے لیکن اس سبب کے بعد مسبَّب نہیں پایا جاتا جب تک کثیر شرائط نہ پائی جائیں اور وہ شرائط ایسی ہیں کہ جن کی حقیقت جاننا انسانی طاقت سے باہر ہے۔لہٰذا اگر اللہ پاک دوسرے اسباب کو بھی مقدَّر فرما دے تو نجومی کی بات درست ہوتی ہے اور اگر مقدَّر نہ فرمائے تو غلط۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی دیکھتا ہے کہ بادل اکٹھے ہو کر پہاڑوں سے اٹھ رہے ہیں تو وہ اندازہ لگاکر کہتا ہے کہ آج بارش ہو گی، لیکن اکثر سورج نکل آتا ہے اور بادل غائب ہو جاتے ہیں اور کبھی اس کے الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ الغرض! صرف بادلوں کا ہونا بارش برسنے کے لئے کافی نہیں جب تک دوسرے اسباب معلوم نہ ہوں۔([12])
اللہ پاک چاہے گا تو ہی بارِش ہو گی:ایک بار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہِ علیہ کی خدمت میں آپ کے ہم عصر، ہئیت و نجوم کے ماہر اور صاحبِ کمال بزرگ مولانا غلام حسین صاحب حاضر ہوئے تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ نے اُن سے پوچھا: فرمائیے!بارش کا کیا اندازہ ہے؟کب تک ہو گی؟انہوں نے ستاروں کی وضع سے زائچہ بنا کر بتایا کہ اس مہینے میں پانی نہیں، آئندہ ماہ میں ہو گی، یہ کہہ کر وہ زائچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ کی طرف بڑھا دیا۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ نے زائچہ دیکھ کر فرمایا:اللہ کو سب قدرت ہے، وہ چاہے تو آج ہی بارش ہو۔ انہوں نے کہا:یہ کیسے ممکن ہے؟آپ ستاروں کی چال نہیں دیکھتے؟اعلیٰ حضرت نے فرمایا:سب دیکھ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ ان ستاروں کے بنانے والے اور اس کی قدرت کو بھی دیکھ رہا ہوں۔سامنے گھڑی لگی ہوئی تھی، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ نے پوچھا:وقت کیا ہوا ہے؟عرض کی:سوا گیارہ۔فرمایا:بارہ بجنے میں کتنی دیر ہے؟جواب ملا:پون گھنٹہ۔فرمایا:اس سے قبل نہیں؟عرض کی:نہیں،ٹھیک پون گھنٹے بعد بارہ بجیں گے۔ یہ سن کر اعلیٰ حضرت اٹھے اور بڑی سوئی گھما دی، فوراً ٹن ٹن بارہ بجنے لگے۔آپ نے فرمایا:مولانا!آپ نے کہا تھا کہ ٹھیک پَون گھنٹے بعد بارہ بجیں گے، یہ اب کیسے بارہ بج گئے؟ انہوں نے کہا:آپ نے گھڑی کی سوئی گھما دی ورنہ اپنی رفتار سے پون گھنٹے بعد ہی بارہ بجتے۔اعلیٰ حضرت نے فرمایا:اسی طرح اللہ ربّ العزت جَلَّ جَلَالُہُ قادِرِ مطلق ہے کہ جس ستارے کو جس وقت چاہے جہاں چاہے پہنچا دے۔وہ چاہے تو ایک مہینا، ایک ہفتہ، ایک دن کیا ابھی بارش ہونے لگے!اتنا زبان مبارک سے نکلنا تھا کہ چاروں طرف سے گھنگورگھٹا چھا گئی اور پانی برسنے لگا۔([13])
سفید گدھا ستاروں کو زیادہ جانتا ہے:نصیرُ الدِّین طوسی جو کہ علمِ ریاضی کا بڑا ماہر گزرا ہے،ایک ولی سے ملاقات کرنے گیا۔کسی نے ان بزرگ سے عرض کیا کہ یہ دنیا کا اس وقت بڑا عالِم ہے۔انہوں نے پوچھا کہ اس میں کیا کمال ہے؟کہا کہ عِلمِ نجوم میں کامل ماہر ہے۔فرمایا:سفید گدھا اس سے زیادہ نجوم یعنی ستاروں کو جانتا ہے۔طوسی کو بہت ناگوار گزرا اور وہاں سے اٹھ گیا۔کمال اتفاق سے رات کو ایک چکی والے کے گھر پہنچا جس کے یہاں بہت سے گدھے پلے ہوئے تھے۔گدھے والا بولا:حضرت!آج سخت بارش ہو گی، اندر آرام کرو۔طوسی نے پوچھا:تجھے کیا خبر؟اس نے کہا:جب میرا گدھا اپنی دم تین بار ہلاتا ہے تو سخت بارش ہوتی ہے،آج اس نے دم ہلائی ہے۔ چنانچہ کچھ دیر بعد تیز بارش شروع آ گئی۔تب یہ شرمندہ ہوا کہ واقعی گدھے بھی مجھ سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں! ([14])
نجومیوں کے پاس جانے والوں کے لیے سبق آموز حکایت:عِلمِ نجوم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ ایک روز میرے پاس دو میاں بیوی آئے، دونوں میں جھگڑا چل رہا تھا، میں نے دونوں کا ہاتھ دیکھا تو عِلمِ نجوم کے مطابق طلاق کی لکیر واضح اور یقینی تھی۔میں نے ان سے کہا:آپ دونوں جو مرضی آئے کر گزریں، آپ دونوں میں طلاق نہیں ہو سکتی۔دو سال بعد جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑی خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔پوچھا تو کہنے لگے:جب آپ نے ہمیں بتایا کہ طلاق کسی صورت نہیں ہو سکتی تو ہم نے سوچا کہ جب طلاق نہیں ہونی تو کیوں نہ مل جل کر زندگی گزاری جائے!بس اس دن کے بعد سے ہماری گھریلو زندگی خوشیوں سے بھر گئی۔([15])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز خوشبوئے عطار واہ کینٹ
[1]احیاء العلوم،4/144،143
[2] رد المحتار،1/110
[3] اشعۃ اللمعات،2/82
[4] ترمذی،1/186،حدیث:135
[5] ترمذی،3/342،حدیث:1869
[6] فتاویٰ رضویہ،21/156،155
[8] مسلم،ص 944،945،حدیث:5821
[9] مراٰۃ المناجیح،6/270
[10]مصنف ابن ابی شیبہ، 13/165،حدیث:26162
[11] مرقاة المفاتیح،8/ 366،تحت الحدیث:4598
[12] احیاء العلوم،1/51ملخصاً
[13] Cانوارِ رضا،ص376،375ملخصاً
[14] تفسیر نعیمی، 1/ 515
[15]بد شگونی،ص 70
Comments