حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات (قسط2)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: معجزاتِ انبیا

موضوع: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات (قسط2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ سے پیوستہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات کا ذکر جاری ہے۔پچھلی قسط میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی والدہ ماجدہ کا آپ کو صندوق میں ڈال کر دریائے نیل کے حوالے کرنے تک کے واقعات  کا ذکر ہوا،اس قسط میں اس کے بعد کے عجائبات ملاحظہ فرمائیے:

فرعون کے محل میں آمد سے متعلق عجائبات

دریائے نیل میں سے ایک نہر نکل کر فرعون کے محل کے قریب بہتی تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صندوق دریا کی موجوں میں ہچکولے کھاتا ہوا اسی نہر میں داخل ہو کر جھولتے ہوئے فرعون کے محل کے قریب پہنچ گیا۔ ایک روایت کے مطابق فرعون کی ایک ہی بیٹی تھی جس سے وہ بےحد پیار کرتا تھا اور وہ بھی برص کی بیماری میں مبتلا تھی، اس کے علاوہ فرعون کی کوئی اولاد نہ تھی، فرعون نے طبیبوں اور جادوگروں سے اس کی صحت کے لیے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تب ہی ٹھیک ہو سکتی ہے جب فلاں دن اور فلاں مہینے جب سورج خوب روشن ہو تو دریا سے کوئی انسان کے مشابہ چیز ملے اور اس کا تھوک لے کر اس کے برص والے مقامات پر ملا جائے۔ چنانچہ جب وہ مہینا اور وہ دن آیا تو فرعون نے دریائے نیل کے کنارے ایک محفل سجائی، اس کے ساتھ اس کی بیوی حضرت آسیہ بنتِ مزاحم بھی تھیں جو بعد میں ایمان لے آئیں، فرعون کی بیٹی بھی اپنی کنیزوں کے ساتھ وہاں موجود تھی کہ اچانک ان کی نظر صندوق پر پڑی جو دریا کی موجوں میں ہچکولے کھاتا ہوا محل کی طرف آ رہا تھا، فرعون نے اس کو منگوایا، انہوں نے اس کو کھولنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، توڑنا چاہا مگر اس میں بھی ناکام رہے، حضرت آسیہ کو اس صندوق کے اندر ایک نور چمکتا ہوا نظر آیا جو ان کے علاوہ کسی کو نہ دکھا، انہوں نے کھولنا چاہا تو صندوق آسانی سے کھل گیا۔

صندوق کھلنے پر سب نے دیکھا کہ اس میں ایک چھوٹا بچہ ہے جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور چمک رہا ہے، اللہ پاک نے اس بچے کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دی، فرعون کی بیٹی نے اس کا تھوک لے کر لگایا تو وہ اسی وقت بالکل ٹھیک ہو گئی اور اس نے بچے کو سینے سے لگا لیا۔بعض فرعونیوں نے جب اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں یہ وہی بچہ نہ ہو جس سے ہمیں خطرہ ہے تو فرعون نے اس بچے کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا، مگر سیدہ آسیہ سامنے آ گئیں اور کہا: تم نے اس سال کے اندر پیدا ہونے والے بچوں کے قتل کا حکم دیا ہے۔ جبکہ یہ بچہ تو سال بھر سے زیادہ کا معلوم ہوتا ہے، نیز تمہارے لیے خطرہ اسی ملک کا بچہ ہو گا،یہ بچہ تو نجانے کس سرزمین سے یہاں آیا ہے! یہ تو بہت خوبصورت ہے، ہمارا کوئی بچہ ہے بھی نہیں کیوں نہ ہم اسے ہی اپنا بچہ بنا لیں! فرعون نے اسے تسلیم کر لیا اور قتل کرنے سے باز آگیا۔ ([1])

اس واقعے سے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تھوک کی خیر و برکت کا ظہور ہوا وہیں آپ کو قتل سے بچا کر رب نے اپنی قدرتِ کاملہ کا بھی خوب مشاہدہ کروا دیا کہ جس بچے کو ختم کرنے کی غرض سے تم نے ہزاروں بچوں کو ذبح کروا دیا میں نے اس کو قتل سے ہی نہیں بچایا بلکہ اس کی پرورش کا انتظام بھی  تمہارے ہی گھر میں کر  دیا ہے:

تو نے کس شان سے موسیٰ کی بچائی ہے جان

تیری قدرت پہ میں قربان خدائے رحمٰن

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

والدہ کے پاس واپسی

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی والدہ ماجدہ کو چونکہ اللہ پاک کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا کہ جب بھی وہ اپنے بچے پر مشکل وقت دیکھے تو اسے دریا میں ڈال دے اور فکر نہ کرے وہ بچہ واپس اسے زندہ سلامت لوٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف آپ کے دشمن فرعون کے محل تک پہنچایا بلکہ ایسے اسباب پیدا فرما دئیے کہ اس ظالم نے خوشی سے اپنے ہی ہاتھوں آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کیا۔ جیسا کہ منقول ہے: جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو دودھ پلانے کے لیے دائیوں کو بلایا تو اللہ پاک نے  آپ کو اپنی قدرت سے روک دیا  کہ وہ اپنی والدہ کے علاوہ کسی اور کا دودھ نہ پئیں۔ لہٰذا جو بھی دائی آتی، آپ ان میں سے کسی کا دودھ نوش نہ فرماتے، اس سے ان لوگوں کو بہت فکر ہوئی کہ کہیں سے کوئی ایسی دائی میسر آئے جس کا دودھ آپ پی لیں۔ ادھر آپ کی والدہ نے اگرچہ اپنا دل مضبوط کر کے آپ کو دریا میں ڈال دیا تھا مگر انہیں اپنے بیٹے کی فکر تھی، پھر جب انہیں اطلاع ملی کہ ان کے بیٹے فرعون کے ہاتھ میں پہنچ گئے ہیں تو یہ سن کر پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا اور قریب تھا کہ وہ آپ کے متعلق  ظاہر کر دیتیں کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن اللہ پاک نے انہیں یہ الہام کر کے ان کا دل مضبوط رکھا  کہ وہ ہمارے اس وعدے پر یقین رکھیں کہ تیرے اس بیٹے کو تجھے واپس لوٹائیں  گے۔ چنانچہ وعدۂ الٰہی کی تکمیل یوں ہوئی کہ آپ کی بہن جو کہ معاملے کی خبر لینے کے لیے فرعون کے دربار میں موجود تھیں جب انہوں نے دیکھا کہ فرعون کو دائی کی تلاش ہے تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھرکے متعلق بتاؤں جو اس بچے کی ذمہ داری لے لیں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں؟ فرعونیوں نے یہ بات منظور کر لی  تو آپ اپنی والدہ کو بلا لائیں۔ حضرت موسیٰ فرعون کی گود میں تھے اور دودھ کے لئے رو رہے تھے اور فرعون آپ کو شفقت کے ساتھ بہلا رہا تھا۔ جب آپ کی والدہ تشریف لائیں اور آپ نے اُن کی خوشبو پائی تو آپ کو قرار آگیا اور آپ نے ان کا دودھ نوش فرما لیا۔ فرعون نے کہا: تم اس بچے کی کیا لگتی ہو کہ اُس نے تمہارے سوا کسی کے دودھ کو منہ بھی نہ لگایا؟ انہوں نے کہا: میں ایک پاک صاف عورت ہوں، میرا دودھ خوشگوار اور  جسم طیب ہے، اس لئے جن بچوں کے مزاج میں نفاست ہوتی ہے وہ اور عورتوں کا دودھ نہیں لیتے جبکہ میرا دودھ پی لیتے ہیں۔ فرعون نے بچہ انہیں دیا اور دودھ پلانے پر انہیں مقرر کر کے اپنے گھر لے جانے کی اجازت دی، چنانچہ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے مکان پر لے آئیں۔ یوں اللہ پاک کا وعدہ پورا ہوا اور انہیں اطمینان کامل ہو گیا کہ یہ بیٹا  ضرور نبی بنے گا۔([2])

فرعون کے محل دوبارہ آمد

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے پاس دودھ پینے کے زمانے تک رہے اور اس عرصے میں فرعون روزانہ انہیں ایک اشرفی دیتا رہا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو فرعون کے پاس لے آئیں اور اس کے بعد آپ وہاں فرعون کے محل میں پرورش پاتے رہے۔([3])

(جاری ہے۔۔۔)




[1] تفسیر کبیر، 8/580۔ تفسیر خازن، 3/425

[2] تفسیر خازن، 3/425، 426 ملتقطاً

[3] تفسیر جلالین، ص 327


Share

Articles

Comments (1)


Security Code

test

test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test test