سلسلہ:فیضانِ اعلیٰ حضرت
موضوع:شرح سلامِ رضا
*بنتِ اشرف عطاریہ مدنیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
149
جس مسلمان نے دیکھا انھیں اِک نظر
اس نظر کی بَصارت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:بصارت:بینائی۔
مفہومِ شعر:جس مسلمان نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ایک نظر بھی دیکھ لیا اس کی بصارت پر لاکھوں سلام۔
شرح:مختلف مشہور صحابہ کرام پر الگ الگ سلام پیش کرنے کے بعد اب ہر اس خوش بخت کی خدمت میں سلام عرض کیا جا رہا ہے جس نے بحالتِ ایمان حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا، کیونکہ یہ اتنا عظیم شرف ہے جس پر قیامت تک کوئی اور شخص فائز نہیں ہو سکتا، خواہ وہ پوری زندگی عبادت و ریاضت میں ہی کیوں نہ صرف کر دے۔اس لئے کہ بحالتِ ایمان حضور کی زیارت کرنا افضل ترین عمل تھا اور جن کے حصے میں یہ سعادت آئی ان کے متعلق مروی ہے:اس کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا (یعنی صحابی) یا مجھے دیکھنے والے (صحابی) کو دیکھا (یعنی تابعی)۔([1])
اس نظر کی بصارت:اس شعر میں اس بصارت پر بھی سلام عرض کیا گیا ہے جس نے صاحبِ نظر کو صحابیت جیسے اعلیٰ مرتبے پر فائز کر دیا، وہ نظر جو ایمان کی حالت میں چہرۂ مصطفےٰ کی زیارت سے سیراب ہوئی وہ بھی کیسی کمال کی تھی کہ جو دیکھنے والے کو اس درجہ پر فائز کر گئی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز نہیں کر سکتی،دنیا کے تمام عالم، عابد، زاہد،غوث و ابدال اور اقطاب سب مل کر بھی ایک صحابی کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے۔بلکہ صحابی کی ذات میں برابری تو بہت دور کی بات ہے اس کے کسی عمل یا نیکی میں بھی برابری نہیں ہو سکتی، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کیے ہوئے مُد بلکہ نصف مُد تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔([2])
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ صحابی کا مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:خدا کی قسم!نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے والے کے منہ پر جو غبار پڑا وہ تم میں سے ہر شخص کے عمل سے بہتر ہے اگرچہ اسے حضرت نوح علیہ السّلام جیسی لمبی عمر ہی کیوں نہ مل جائے! ([3])
150
جن کے دشمن پہ لعنت ہے اللہ کی
ان سب اہلِ محبت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:لعنت:رحمت سے دوری۔
مفہومِ شعر:جن کے دشمن پر اللہ پاک نے لعنت فرمائی ان سب اہل محبت پہ لاکھوں سلام۔
شرح:جن کے دشمن پہ لعنت:ایک حدیث قدسی کے مطابق جو اللہ پاک کے کسی ولی سے دشمنی رکھے اللہ پاک نے اس سے جنگ کا اعلان کر رکھا ہے، ([4]) جب اللہ پاک کے ایک عام ولی کے دشمن کا یہ حال ہے تو صحابہ جو اللہ پاک اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بھی خاص دوست ہیں،ان کے دشمن کا انجام کیسا برا ہو گا!چنانچہ
حضرت عُوَیم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: بے شک اللہ کریم نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے لئے میرے اصحاب کو پسند فرمایا،پھر ان میں سے میرے وزیر،مددگار اور رشتےدار بنائے۔تو جو انہیں گالی دے گا، اس پر اللہ پاک، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، روزِ قیامت اللہ پاک اس کا کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ نفل۔([5]) ایک اور روایت میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرےصحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو:تمہارے شر پر اللہ پاک کی لعنت ہو۔([6])
یاد رکھئے!صحابہ کرام ہمیشہ ہر دور کے مسلمانوں کے نزدیک محترم رہے ہیں،البتہ!خلافتِ حیدری میں عبدُ اللہ ابنِ سبا یہودی نے مذہبِ رِفض ایجاد کیا اور پھیلایا۔ ([7]) یہ اسلامی حلیےمیں ظاہر ہوا،اس نے منافقوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی،اسلام کے مٹائے ہوئے خاندانی فرق اور نسلی تعصب کو دوبارہ سے فروغ دیا،نیز بنو اُمیہ و بنو ہاشم کی پرانی دشمنی کو زندہ کرنے کی کوشش کی،یہی وہ پہلا شخص تھا جس نے صحابہ کرام سے دشمنی اور ان کو برا بھلا کہنے کی تحریک شروع کی، اس نے اپنی اس دعوت کو محبتِ اہلِ بیت کے غلاف میں پیش کیا اور صحابہ کرام کو اہلِ بیت بالخصوص ابوبکر و عمر کو مولا علی کے خلاف ظاہر کرنے کی کوشش کی،یہاں تک کہ معاذ اللہ ابوبکر و عمر کو حق چھیننے والا تک کہنے کی گستاخی کی۔کچھ دیہاتی عوام اور نئے مسلمان کہ اسلام جن کے دلوں میں داخل نہیں ہوا تھا وہ اس کے دھوکے میں آگئے یہاں تک کہ یہ ایک فرقہ بن گیا جس کے افکار و نظریات کی اصل بنیاد یہودی مذہب پر تھی، اسی لیے یہ بات مشہور ہے کہ رافضیت کی اصل جڑیں یہودیت سے نکلتی ہیں۔اس فتنے کی پیشین گوئی نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پہلے ہی فرما دی تھی، جیسا کہ حدیثِ مرفوع میں ہے:آخر زمانہ میں ایک قوم پیدا ہو گی جنہیں رافضی کہا جائے گا کیونکہ اسلام کو رفض کر چکے(یعنی چھوڑ چکے) ہوں گے،وہ لوگ مشرکین ہیں،وہ خود کو اہلِ بیت سے محبت کرنے والے کہیں گے مگر ہوں گے جھوٹے کیونکہ جناب ابوبکر و عمر کو گالیاں دیں گے۔([8])
صحابہ کرام نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت کو دنیا کی ہر نعمت و آسائش پر ترجیح دی اور حضور سے ایسی محبت و وفا کی کہ دنیا کے لیے عشق و وفا کی اعلیٰ مثال بن گئے۔اسی محبت و تعظیم کی ایک جھلک عُروہ بن مسعود نے اس وقت دیکھی جب وہ ایمان نہیں لائے تھے،انہوں نے صحابہ کرام کا جو اندازِ تعظیمِ رسول دیکھا اسے کفارِ مکہ کے سامنے جا کر یوں بیان کیا:وہ وضوکرتے ہیں تو ان کے صحابہ وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے بے حد کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ ایسا لگتا ہے جیسے وضو کا پانی نہ ملنے کے سبب لڑ پڑيں گے،منہ یا ناک مبارک کا پانی صحابہ ہاتھوں میں لے کر اپنے چہر وں اور جسموں پر ملتے ہیں،ان کاکوئی بال جسم سے جدا نہیں ہوتا تھا مگر اس کے حصول کے لئے جلدی کرتے،جب کوئی حکم دیتےتوصحابہ فوراً بجا آوری کرتے ہیں۔اے جماعت ِقریش!میں بڑے بڑے بادشاہوں یہاں تک کہ قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں لیکن میں نے کسی بھی بادشاہ کے خدمت گاروں کو ایسی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جیسی تعظیم اصحابِ محمد اُن کی کرتے ہیں۔ ([9])
تقریباً یہی الفاظ اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت ابو سفیان کے بھی تھے کہ جب حضرت زید بن دثنہ رضی اﷲ عنہ سولی پر تھے تو ابو سفیان نے ان سے کہا:اے زید!اگر اس وقت تمہاری جگہ محمد اس طرح قتل کئے جاتے تو کیا تم اس کو پسند کرتے؟حضرت زید رضی اللہُ عنہ ابو سفیان کی یہ بات سن کر تڑپ گئے اور جذبات سے بھری ہوئی آواز میں فرمایا:اے ابو سفیان! خدا کی قسم!میں اپنی جان کو قربان کر دینا عزیز سمجھتا ہوں مگر میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مقدس پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھے، مجھے یہ بھی گوارا نہیں! تب ابو سفیان نے کہا تھا:میں نے بڑے بڑے محبت کرنے والوں کو دیکھا ہے۔مگر عشاقِ مصطفےٰ جیسا کوئی نہیں۔ ([10])
ایک بار حضرت علی المرتضیٰ،شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کیسی محبت کرتے ہیں؟تو آپ نے فرمایا:خدا کی قسم!حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیں اپنے مال، اپنی اولاد، ماں باپ اور سخت پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔([11])
151
باقیِ ساقیانِ شرابِ طَہور
زَینِ اہلِ عبادت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:ساقیان:پلانے والے۔شراب طہور: پاکیزہ شراب۔زین:زینت، خوبصورتی۔
مفہومِ شعر:جن صحابہ کرام کا ذکر ہو چکا ان کے علاوہ وہ دیگر تمام ائمہ اہلِ بیت و صحابہ کرام جنہوں نے لوگوں کو عشقِ حقیقی کی پاکیزہ شراب پلائی اور عبادت گزاروں کی زینت بنے ان سب پر بھی لاکھوں سلام۔
شرح:قرآنِ کریم میں جابَجا صحابہ کرام کے اچھے عمل،اچھے اخلاق اور اچھے ایمان کا ذکر ہے اور انہیں دنیا ہی میں مغفرت و بخشش اور انعاماتِ اخروی کی خوشخبری سنا دی گئی، جیسا کہ پارہ 9 سورۃ الانفال کی آیت نمبر 4 میں ارشادِ باری ہے :
اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴)
ترجمہ:یہی سچے مسلمان ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔
اسی طرح پارہ 11 سورۂ توبہ کی آیت نمبر 100میں ارشاد ہوتا ہے
رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)
ترجمہ:ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔
الغرض صحابہ کرام نے اپنے عمل اور کردار کی مدد سے لوگوں کو عشقِ حقیقی کے جام بھر بھر کے پلائے اور لوگ ان کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر خدا و مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت کے جاموں سے سیراب ہوتے چلے گئے۔
152
اور جتنے ہیں شہزادے اس شاہ کے
ان سب اہلِ مکانت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:اہلِ مکانت:صاحبِ مقام، بلند رتبہ۔
مفہومِ شعر:تا قیامت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جتنے بھی شہزادے نواسے ہوں گے ان تمام کے مقام و مراتب اور سیادت پر لاکھوں سلام۔
شرح:صحابہ کرام کے ذکر ِخیر کے بعد اب قیامت تک آنے والے ساداتِ عظام پر سلام پیش کیا جارہا ہے،یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہیں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خاندان نصیب ہوا۔اسلام خالی نسب کو ترجیح نہیں دیتا تاہم اگر نسب کے ساتھ حسب بھی شامل ہوجائے تو اسلام اسے عزت دیتا ہے، لہٰذا وہ مسلمان جو باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ سادات سے ہوں تو ان کا مقام اسلام کی نظر میں مزید بڑھ جاتا ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍؕ- (پ 27، الطور:21)
ترجمہ:اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی (جس) اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی تو ہم نے ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیا اور اُن (والدین) کے عمل میں کچھ کمی نہ کی۔
جب عام مومنین کی اولاد کی یہ شان ہے تو وہ حضرات جن کا نسب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم ہوتا ہے ان کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہوگا!نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن ہر رشتہ اور ہر نسب ختم ہوجائے گا مگر میرا رشتہ و نسب باقی رہے گا۔([12])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان) گوجرہ منڈی بہاؤ الدین
[1] ترمذی،5/461،حدیث:3884
[2] بخاری،2/522،حدیث:3673
[3]ابو داود،4/280،حدیث:4650
[4]بخاری،4/248،حدیث:6502ملخصاً
[5]معجم کبیر،17/140،حدیث:349
[6]ترمذی،5/464،حدیث:3892
[7]مراۃ المناجیح، 8/344
[8]مرقاۃ المفاتیح،10/367،366،تحت الحدیث:6017
[9]الشفا،2/ 39
[10]شرح زرقانی علی المواہب،2/492،493
[11] الشفا، 2/22
[12] مجمع الزوائد، 8/398، حدیث:13827ملتقطاً
Comments