دار الافتاء اہلسنّت (دعوتِ اسلامی)مسلمانوں کی شرعی
رہنمائی میں مصروفِ عمل ہے۔ تحریراً، زبانی، فون اور دیگر ذرائع سے ملک وبیرونِ
ملک سے ہزار ہا مسلمان شرعی مسائل دریافت کرتے ہیں۔ جن میں سے دو منتخب فتاویٰ ذیل
میں درج کئے جا رہے ہیں۔
تعزیت سے متعلق احکام
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ (1)تین دن بعد تعزیت کا حکم کیا ہےمکروہِ تنزیہی یا تحریمی؟ (2)کلماتِ تعزیت کیا ہیں ۔کیا کلماتِ دعاء اور صرف یہ کہنا آپ کی والدہ کا پتا چلا اللہ پاک مغفرت فرمائے یہ کلماتِ تعزیت ہیں یا نہیں ؟(3)تعزیت کا مقصد کیا ہے اور یہ کیوں کی جاتی ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ
الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:(1)تعزیت کا وقت وفات سے تین دن تک ہے افضل یہ ہے کہ پہلے ہی دن تعزیت کی
جائے۔ البتہ جس شخص کو فوتگی کا علم نہ ہو تو وہ بعد میں بھی تعزیت کر سکتا
ہے۔باقی لوگوں کے لئے تین دن([1])بعد
تعزیت کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔([2])
سیّدی اعلیٰ حضر ت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں:
”پہلے ہی دن ہونا بہتر و افضل ہے فی الدر المختار اَوَّلُہَا
اَفْضَلُھَا یعنی ایام تعزیت“ یعنی تعزیت کے ایام میں سب سے افضل
پہلا دن ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج9، ص395)
(2)تسلّی اور دُعا دونوں طرح کے الفاظ تعزیت کے
کلمات کہلاتےہیں۔ ([3])تعزیت کاطریقہ بیان کرتےہوئے صدر
الشَّرِیعہ بدرُ الطریقہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِرشاد
فرماتے ہیں:”تعزیت میں یہ کہے، اللہ تَعَالٰی میّت کی مغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رحمت
میں ڈھانکے اور تم کو صبر روزی کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے۔ نبی صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے اِن لفظوں سے تعزیت فرمائی:لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَاَعْطٰی وَکُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ
مُّسَمًّیخدا
ہی کا ہے جو اُس نے لیا دیا اور اُس کے نزدیک ہرچیز ایک میعادِمقرر(وقتِ مقرر)کے ساتھ ہے۔“(بہار شریعت،ج1 ، ص852،
حصہ4،مکتبۃ المدینہ)
مُفسِّرِ
شَہِیْر حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:”تعزیت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں
جس سے اس غمزَدہ کی تسلی ہوجائے یہ الفاظ بھی کتبِ فقہ میں منقول ہیں۔فقیر کا
تَجْرِبَہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں کو واقعاتِ کربلا یاد دلائے جائیں اور کہا
جائے کہ ہم لوگ تو کھا پی کر مرتے ہیں وہ شاہزادے تو تین دن کے روزہ دار شہید ہوئے
تو بہت تسلی ہوتی ہے۔“(مراٰۃ المناجیح،ج2، ص507)
(3) تعزیت کا بنیادی مقصد
لَوَاحِقِیْن کے غم میں شریک ہو کر اُنہیں حوصلہ دینا اور انہیں صبر کی تلقین کرنا
ہے۔تعزیت مَسْنُوْن عمل ہے اور اگر قریبی رشتہ ہوتو صِلَۂ رَحمی کے تقاضے کے پیشِ
نظر تعزیت کی اَہْمِیَّت مزید بڑھ جاتی ہے یونہی حقِّ پڑوس اور حقِّ رفاقت یا
دوستی یا ساتھ کام کرنا وغیرہ وہ تعلقات ہیں جن میں تعزیت کرنا اور لَوَاحِقِیْن
کو حوصلہ دینا اِنتہائی اَہَم عمل ہے۔اس عمل سے ایک طرف رشتہ داروں یا ساتھ اُٹھنے
بیٹھنے والوں سے تعزیت کرنے ،تسلِّی دینے اور میت کے لئے دُعا کرکے لَوَاحِقِیْن
کے دل میں خوشی داخل کرنے سے لَوَاحِقِیْن پر پہاڑ جیسے صَدْمَہ کا بوجھ کم
ہوتاچلا جاتا ہے۔ تو دوسری طرف تعزیت کرنے والا خودغرضی اور مطلب پرستی کا شکار
نہیں ہوتاکیونکہ جو انسان اپنے رشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں کی خوشی
غمی میں شریک ہوتا ہے وہ مِلَنْسار کہلاتا ہے اور مِلَنْسار ہونا اَخلاقِیات میں ایک اچھا وصف ہے۔ فیضُ القدیر میں ہے: امام نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ تعزیت کا مطلب
یہ ہے کہ صبر کی تلقین کی جائے اور ایسی باتیں ذکر کی جائیں جو میت کے
لَوَاحِقِیْن کوتسلی دیں اور اُن کے غم اور مصیبت کو ہلکاکریں۔(فیض
القدیر،ج6، ص232) وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا دُعا سے تقدیر بدل
جاتی ہے؟
سوال:کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنا ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی
ہے کیا یہ بات درست ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ
الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:تقدیر کی تین قسمیں ہیں:
(1) ”مُبْرَمِ حقیقی“جو کسی دعا یا عمل سے نہیں بدل
سکتی۔ (2) ”تقدیر ِمُعَلَّق مشابہ مُبْرَم“صُحُفِ ملائکہ میں بھی
نہیں لکھا ہوتا ہے یہ کس دعایا عمل سے بدلے گی البتہ خَوَاص اَکَابِر کی اس تک
رسائی ہوتی ہے ۔اسی کے متعلق حدیث پاک میں ہے: ”اِنَّ الدُّعَا یَرُدُّ
الْقَضَاءَ بَعْدَ مَا اَبْرَمَ“یعنی
دعا قضائے مُبْرَم (معلق مشابہ مبرم)کو ٹال
دیتی ہے۔ (کنز العمال،ج1،
ص28،جزء ثانی،بالفاظِ متقاربۃ) (3)”تقدیرِ
مُعَلَّق
مَحْض“یہ قسم صحف ملائکہ میں
لکھی ہوتی ہے کہ کس دعا یا عمل سے یہ تقدیر بدل سکتی ہے اس تک اکثر اولیاء کی
رسائی ہوتی ہے اِن کی دعا سے اِن کی ہمت سے ٹل جاتی ہے۔ (بہار شریعت،ج1، ص12،حصہ1،مکتبۃ
المدینہ ۔المعمتد المستند، ص54)
سُنَنِ ابنِ ماجہ میں ہے۔”عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزِيْدُ فِي الْعُمْرِ اِلَّا الْبِرُّ وَلَا يَرُدُّ
الْقَدْرَ اِلَّا الدُّعَاءُ“حضرت
ثوبانرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہے کہ رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں
کرتی اور دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو رد نہیں کرتی۔(سنن ابن
ماجہ،ج1،
ص69،حدیث:90)
حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد
فرماتے ہیں:”یعنی دعا کی برکت سے آتی بلا ٹل جاتی ہے دعائے درویشاں رَدِّ بلا۔
قضاء سے مراد تقدیرِ مُعَلَّق ہے یا مُعَلَّق مُشَابَہ بِا لمُبْرَم کہ ان دونوں میں تبدیلی تَرْمِیْمِی ہوتی رہتی ہے تقدیرِ مُبْرَم کسی طرح نہیں
ٹلتی۔“(مراٰۃ
المناجیح،ج3، ص295)
اِس مسئلہ کی مزید معلومات کے لئے
رَئِیْسُ الْمُتَکَلِّمِیْن مفتی محمد نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاب”اَحْسَنُ الْوِعَا لِآدَابِ الدُّعَاءِ“بنام ”فضائل ِدعا“ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، صفحہ243تا 248 کا مطالعہ فرمائیے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
رَجَب میں یہ دعا
پڑھنا سنّت ہے!
جب رَجب کا مہینا آتاتو
نبیِّ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَیہ دُعا پڑھتے تھے:اَللّٰھُمَّ
بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَّشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَان۔یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!تو ہمارے لیے رَجب اور شعبان میں بَرَکتیں عطا فرمااور ہمیں رَمَضان
تک پہنچا۔(کفن کی واپسی، ص2، بحوالہاَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی،ج۳،ص۸۵،الحدیث: ۳۹۳۹)
Comments