
اگرمیری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں۔ (معجم اوسط،ج4،ص322،حدیث:6116) نبیِّ رحمت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے یہ اعزازی اور رضامندی کے کَلِمات مسلمانوں کے اس عظیم خیر خواہ، ہمدرد اورغم گُسار ہستی کےلئے ہیں جسے خلیفۂ ثالث(یعنی تیسرے خلیفہ)امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پیدائش و قبولِ اسلام: آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ عامُ الفِیل(اَبْرَہَہ بادشاہ کے مکّۂ مکرّمہ پر ہاتھیوں کے ساتھ حملے) کےچھ سال بعدمکّۂ مکرّمہ میں پیدا ہوئے۔ (الاصابہ،ج 4،ص377) آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداہی میں داعیِ اسلام صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی پکار پر لَبَّیْک کہا۔ (معجم کبیر،ج1،ص85، حدیث:124) اسلام لانےکے بعد چچا حَکَم بن ابو العاص نے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو رسیوں سے باندھ دیا اور دینِ اسلام چھوڑنے کا کہا تو آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے اسے صاف صاف کہہ دیا: میں دینِ اسلام کو کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا اور نہ ہی کبھی اس سے جد ا ہوں گا۔ (تاریخ ابن عساکر،ج39،ص26ملخصاً)حُلیہ مبارکہ: آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا سینہ چوڑا،قد دَرْمِیانہ کہ زیادہ لمبا نہ زیادہ چھوٹا اور خدوخال حسین تھے جنہیں گندُمی رنگ نےاور پُرکشش (Attractive)بنادیا تھا جبکہ زرد خِضاب میں رنگی ہوئی بڑی داڑھی چہرے پر بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔(تاریخ ابن عساکر ،ج39،ص12) القاب و اِعْزازات: آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے رحمتِ عالَم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی دو شہزادیوں رضیَ اللہُ تعالٰی عنہما سے یکے بعد دیگرے نکاح کرکے ذُوالنُّورین (2 نور والے) کا لقب پایا، حضرت سیّدنا لُوط علیہِ السَّلام کے بعد آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ سب سے پہلی ہستی ہیں جنہوں نے رِضائے الٰہی کی خاطر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرت فرمائی۔(معجم کبیر،ج1،ص90، حدیث: 143) اور ہجرت بھی ایک نہیں بلکہ دو دفعہ کی، ایک مرتبہ حَبْشہ کی طرف تو دوسری بار مدینے کی جانب۔ (تاریخ ابن عساکر ،ج39،ص8) آپرضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے دنیا میں قراٰنِ کریم کی نَشْر و اِشاعت فرما کر اُمّتِ مُسْلِمہ پر احسانِ عظیم کیا اور جامعُ القراٰن ہونے کااِعزازپایا ۔(1)آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی نہ کبھی شراب(Wine) پی، نہ بدکاری کے قریب گئے،نہ کبھی چوری کی نہ گانا گایا اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا۔ (الریاض النضرۃ،ج2،ص33،تاریخ ابن عساکر،ج 39،ص27،225) سیرتِ مبارَکہ: اَدَب، سَخاوت، خیر خواہی، حیا، سادَگی، عاجِزی، رَحْم دلی، دل جوئی ،فکر ِآخِرت ،اِتِّباعِ سنّت اور خوفِ خدا آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی سیرتِ مبارکہ کے روشن پَہلو ہیں۔ اَدَبِِ رسول: ایساتھا کہ جس ہاتھ سے رحمتِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے دستِ حق پرست پر بَیعت کی اس ہاتھ سے کبھی اپنی شَرْم گاہ کو نہیں چُھوا۔(معجم کبیر،ج1،ص85، حدیث:124) سخاوت: ایسی کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کی بے سروسامانی کو دیکھتے ہوئے پہلی دفعہ ایک سو (100) اونٹ (Camel)، دوسری مرتبہ دوسو (200) اونٹ اور تیسری بار تین سو (300) اونٹ دینے کا وعدہ کیا۔(ترمذی،ج5،ص391، حدیث:3720 ملخصاً) مگر حا ضِر کرنے کے وَقت آپ نے 950 اُونٹ، 50گھوڑے اور 1000 اشرفیاں پیش کیں، پھر بعد میں 10 ہزار اشرَفیا ں اور پیش کیں۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص395) خیر خواہی: ایسی کہ ہر جُمُعہ (Friday)کو غلام آزاد کیا کرتے، اگر کسی جمعہ ناغہ ہوجاتا تو اگلے جمعہ دو غلام آزاد کرتے تھے۔ (تاریخ ابن عساکر، ج39،ص28) با حیا:ایسے کہ بند کمرے میں غُسْل کرتے ہوئےنہ اپنے کپڑے اتارتے اور نہ اپنی کمر سیدھی کر پاتے۔ (حلیۃ الاولیاء، ج1،ص94) لباس میں سادَگی: ایسی کہ مال و دولت کی فَراوانی کے باوجود جمعہ کے دن مِنبر پر خُطبہ دیتے ہوئے بھی چار(4) یا پانچ (5) درہم کا معمولی تہبندجسم کی زِینت ہوتا۔ (معرفۃ الصحابہ،ج1،ص79) کھانے میں سادگی: ایسی کہ لوگوں کو امیر وں والا کھانا کھلاتے اور خود گھر جا کر سِرکہ اورزیتون(Olive) پر گُزارہ کرتے۔ (الزہدلامام احمد، ص 155،رقم: 684) عاجِزی: ایسی کہ خلافت جیسے عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجودخچّر پر سُوار ہوتے تو پیچھے غلام کو بٹھانے میں کوئی عار (شرم) مَحسوس نہ کرتے۔(الزہد لامام احمد ،153،رقم: 672 ماخوذاً) رَحْم دلی: ایسی کہ خادِم یا غلام کے آرام کا خیال فرماتے اور رات کے وقت کوئی کام پڑتا تو خادموں کوجگانا مناسب خیال نہ کرتے اور اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے۔ (تاریخ ابن عساکر ،ج 39،ص236) دل جوئی: کی ایسی پیاری عادت کہ ایک مرتبہ حضرت مُغِیرہ بن شُعبہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے غلام کا نکاح ہوا تو اس نے آپ کو شرکت کی دعوت دی۔ آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ تشریف لائے اور فرمایا: میں روزے سے ہوں مگر میں نے یہ پسند کیا کہ تمہاری دعوت کو قبول کروں اور تمہارے لئے برکت کی دعا کروں۔ (الزہدلامام احمد، ص156، رقم:689)عبادت گزار:ایسے تھے کہ رات کے ابتدائی حصّے میں آرام کرکےرات بھر عبادت کرتے رہتے جبکہ دن نفلی روزے میں گزرتا۔ (الزہدلامام احمد، ص156،رقم: 688) تلاوتِ قراٰن کے عاشق: ایسے کہ ایک رکعت میں ختمِ قراٰن کرلیتےتھے۔(معجم کبیر،ج 1،ص87،حدیث:130) خود فرمایا کرتے تھے: اگر تمہارے دل پاک ہوں تو کلامِ الٰہی سے کبھی بھی سیر نہ ہوں۔ (الزھد لامام احمد ، ص 154، رقم:680) عَشَرۂ مُبَشَّرہ (دس جنتی صحابہ) میں شامل ہونے کے باوجود فکرِ آخرت: ایسی کہ جب کسی قبرکے پاس کھڑے ہوتے تواِس قَدَر روتے کہ آنسوؤں سے آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی رِیش(یعنی داڑھی) مبارَک تَر ہو جاتی۔ ( ترمذی،ج 4،ص138، حدیث:2315)اتباعِ سنّت کا جذبہ: ایسا کہ مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دَستی کا گوشت منگوا یا اور کھایا اور بِغیرتازہ وُضو کئے نَماز اداکی پھر فرمایا کہرسول اللہ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے بھی اِسی جگہ بیٹھ کر یِہی کھایا تھا اور اِسی طرح کیا تھا۔ (مُسندِ احمد ،ج1،ص137، حدیث:441ملخصاً) خوفِ خدا: ایسا کہ ایک بار اپنے غلام سے فرمایا: میں نے ایک مرتبہ تمہارا کان کھینچا تھا ،تم مجھ سے اس کا بدلہ لے لو،اس نے کان پکڑا تو فرمایا: زور سے کھینچو ،پھر فرمایا:کتنی اچھی بات ہےکہ قِصاص کا مُعامَلہ دنیا ہی میں ہے، آخرت میں نہیں۔(الریاض النضرۃ،ج2،ص45)دورِ خلافت: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ یَکُم محرّم الحرام 24 ہجری کو مَسندِ خِلافت پر فائز ہوئے۔آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے دورِ خلافت میں اَفریقہ، ملکِ روم کا بڑا عَلاقہ اور کئی بڑے شہر اسلامی سلطنت کا حصہ بنے۔ 26 ہجری میں مسجدِ حرام کی توسیع جبکہ 29 ہجری میں مسجدِ نَبَوی شریف کی توسیع کرتے ہوئے پتھر کے ستون اور ساگوان کی لکڑی کی چھت بنوائی۔ (تاریخ الخلفاء،122تا 124ملخصاً) وصال مبارک: آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہنےبارہ سال خلافت پر فائز رہ کر 18 ذُوالحجۃ الحرام سن 35 ہجری میں بروزِ جمعہ روزے کی حالت میں تقریباً 82 سال کی طویل عمر پاکر نہایت مظلومِیَّت کے ساتھ جامِ شہادت نَوش فرمایا۔جنّت کے دولہا :شہادت کے بعد حضرت سیّدنا عبد اللہ بن عباسرضیَ اللہُ تعالٰی عنہمانے رحمتِ عالم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کو خواب میں فرماتے ہوئے سنا: بیشک! عثمان (رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ)کو جنّت میں عالیشان دولہا بنایا گیا ہے۔ (الریاض النضرۃ ،ج2،ص67)
Comments