Book Name:Lambi Zindagi kay Fazail

ڈرتے ہیں بلکہ زندگی کے حَرِیْص (یعنی لالچی) ہیں۔ اِرشاد ہوا:

وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚۛ-یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍۚ- (پارہ:1، البقرۃ:96)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اور بیشک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس رکھتے ہیں اور مشرکوں میں سے ایک (گروہ) تمنا کرتا ہے کہ کاش اسے ہزار سال کی زندگی دیدی جائے۔

یعنی یہ بنی اسرائیل زِندہ رہنے کی اِنتہائی حِرْص(لالچ) رکھتے ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ ہم پکّے جنّتی ہیں، حال یہ ہے کہ آخرت کی طرف رَغبت ہی نہیں رکھتے۔ ہمیشہ دُنیا ہی میں رہنے کے خواہش مند ہیں۔

دوسری طرف مُشْرِکْ لوگ ہیں، جو آخرت کو مانتے ہی نہیں ہیں، اُن کے نزدیک تو یہ دُنیا ہی ایک زندگی ہے بس۔ اِس کے بعد کی زندگی کو وہ مانتے ہی نہیں ہیں۔ وہ مُشْرِکْ زِندگی کے جتنے حَرِیْص ہیں، یہ بنی اِسرائیل آخرت کو مانتے بھی ہیں، جنّتی ہونے کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں، اِس کے باوُجُود مشرکین سے بھی زیادہ زندگی کی حِرْص رکھتے ہیں۔([1]) مگر یاد رکھو...!!

وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠(۹۶) (پارہ:1، البقرۃ:96)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:حالانکہ اتنی عمر کا دیا جانا بھی اسے عذاب سے دور نہ کر سکے گا اور اللہ ان کے تمام اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔

یعنی محض اِس دُنیا میں سالہا سال تک زِندہ رہنا عذاب سے بچا نہیں سکے گا۔ موت بہر حال آنی ہی آنی ہے۔ ایسا نہیں ہو گا کہ فُلاں چونکہ 2 ہزار سال زندہ رہا، لہٰذا اُسے بخش دیا


 

 



[1]...تفسیر نعیمی ،پارہ  :1،سورۂ بقرہ،زیرِ آیت :92، جلد:1،صفحہ:567۔