جنازہ میں سلام سے پہلے ہاتھ چھوڑنا/جہیزوبَری کامالک کون؟/محافل کا بقیہ چندہ

نمازِجنازہ میں چوتھی تکبیرکے بعد ہاتھ چھوڑنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم شروع سے نمازِ جنازہ پڑھتے آرہے ہیں اور چوتھی تکبیر کے بعد جب امام دائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو دایاں ہاتھ اور جب بائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو بایاں ہاتھ چھوڑ دیتے تھے، پچھلے دِنوں ایک شخص نے جنازہ پڑھایا تو اُس نے کہا کہ جیسے ہی چوتھی تکبیر ہو دونوں ہاتھ چھوڑ دئیے جائیں،اس کے بعد سلام پھیریں، آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ کونسا طریقہ صحیح ہے؟

سائل:حاجی لیاقت (کینٹ،مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

 اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صحیح یہ ہے کہ جیسے ہی امام جنازہ کی چوتھی تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ چھوڑ دیں پھر اس کے بعد سلام پھیریں، وجہ اس کی یہ ہے کہ قیام میں جہاں ٹھہرنا ہوتا ہے یا جہاں ذکر و تلاوت کرنی ہوتی ہے وہاں ہاتھوں کو باندھیں گے اور جہاں ایسا معاملہ نہیں ہے وہاں ہاتھ نہیں باندھیں گے اور چوتھی تکبیر کے بعد چونکہ کچھ ذکر و اذکار نہیں کرنا ہوتا اور نہ ہی مزید ٹھہرنا ہوتا ہے بلکہ تکبیر کے فوراً بعد سلام پھیرناہوتا ہے، اس لئے یہاں ہاتھ باندھنے کی حاجت نہیں جس طرح کہ عیدین کی تکبیراتِ زائدہ (زائد تکبیروں )کے دوران کچھ نہیں پڑھنا ہوتا اس لئے وہاں ہاتھ نہیں باندھتے۔

وَاللہُ  اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

جہیز کے سامان کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ میری عزیزہ کو طلاق ہوئی۔ اس کے پاس دو طرح کا سامان تھا۔ ایک وہ سامان (فرنیچر، کپڑے، زیورات وغیرہ) جو اس کے والدین نے دیا اور دوسرا وہ سامان (کپڑے، زیورات وغیرہ) جو شوہر اور اس کے والدین نے دیا۔ شرعی رہنمائی فرمائیں! اس صورت  میں کونسا سامان عورت کا ہے اور کونسا شوہر کاہے؟

سائل:غلام دستگیر (خانقاہ چوک،مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورت کو جو سامان مَیکے کی  طرف سے بطورِ جہیز ملا وہ عورت  ہی کی  مِلْکِیَّت  ہے۔ اس میں کسی اور کا حق نہیں۔

شوہر یا اس کے گھر والوں کی طرف سے جو سامان اور زیورات وغیرہ عورت کو دئیے جاتے ہیں اس کی تین صورتیں ہوتی  ہیں:

(1)شوہر یا اس کے گھر والوں نے صراحتاً (واضح طور پر) عورت کو سامان اور زیورات دیتے وقت مالک بناتے ہوئے قبضہ دیا تھا۔ (2)شوہر یا اس کے گھر والوں نے صراحتاً  عورت کو سامان اور زیورات عاریتاً (یعنی عارضی استعمال کیلئے) دئیے تھے۔ (3)شوہر یا اس کے گھر والوں نے دیتے وقت کچھ بھی نہیں کہا۔پہلی صورت میں عورت سامان اور زیورات کے ہِبہ (Gift)  کیے جانے کی وجہ سے مالکہ ہے، اسی کو یہ سب دیا جائے گا۔ دوسری صورت میں جس نے دیا وہی مالک ہے۔ وہ واپس لے سکتا ہے اور تیسری صورت میں شوہر کے خاندان کا رواج دیکھا جائے گا۔ اگر وہ عورت کو ان اشیاء کا مالک بناتے ہیں تو عورت کو دیا جائے گا ورنہ وہ حقدارنہیں اس سے واپس لیا جا سکتا ہے۔

وَاللہُ  اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

محافل کا چندہ مسجد میں دینا کیسا؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)مسجد کی انتظامیہ محفلِ میلادُ النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے اور دیگر محافل کے لیے جو چندہ اکٹھا کرتی ہے اس میں سے محفل کے اَخراجات کے بعد جو چندہ بچ جائے اسے مسجد کے پیسوں میں جمع کرسکتی ہے یا نہیں؟ (2)اگر محفل کے لئے جمع کیا گیا چندہ کم پڑجائے تو کیا مسجد کے پیسوں سے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ ہمارے ہاں عام طور پرمحافل کے لیے الگ سے چندہ کیا جاتا ہے، مسجد کے چندے سے محافل نہیں کی جاتیں ۔سائل:محمد الیاس عطاری (مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

 اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)اس باقی ماندہ ( یعنی باقی بچے ہوئے)چندے کو اس طرح مُطلقاً مسجد کے پیسوں میں جمع کرنا جائز نہیں بلکہ اس طرح کے چندے میں کچھ تفصیل ہوتی ہے جو درج ذیل ہے کہ اولاً  جن لوگوں نے یہ چندہ دیا تھا ان کو حصَۂ رَسد کے مطابق واپس کرنا فرض ہے یا وہ جس کام میں کہیں اس میں لگا دیا جائے، اُن کی اِجازت کے بغیر کسی دوسرے کام میں اِستعِمال کرنا حرام ہے اور اگر وہ فوت ہوچکے ہوں تو ان کے ورثا کو واپس کیا  جائے اور اگر چندہ دینے والوں کا عِلم نہ ہو یا یہ معلوم نہ ہوسکے کہ کس سے کتنا لیا تھا تو جس کام کے لئے چندہ لیا تھا اسی طرح کے دوسرے کام میں اِستعمال کریں اور اگر اس طرح کا دوسرا کام نہ ملے تو کسی فقیر کو دیدیا جائے یا مسجد و مدرسہ میں خرچ کر دیا جائے۔

حصَۂ رَسد سے مراد یہ ہے کہ مثلاً 8 افراد نے 100، 100 روپے اور 4 افراد نے50، 50 روپے چندہ دیا، اب اس 1000 روپے میں سے 600 روپے استعمال ہوگئے اور 400 بچ گئے تو 100 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 40 روپے اور 50 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 20 روپے واپس کرنے ہونگے۔

اِس صورتِ حال سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ محفل کے لیے چندہ کرتے ہوئے لوگوں سے اس طرح اجازت لے لی جائے کہ محفل  سے جو پیسے باقی بچ جائیں گے وہ ہم مسجد کے چندے میں شامل کر لیں گے۔ اگر چندہ دینے والے اس کی اجازت دیدیتے ہیں تو پھر باقی رہ جانے والی رقم کو آپ مسجد کے چندہ میں شامل کر سکتے ہیں کہ ایک کام کے لئے دیئے ہوئے مال میں سے باقی بچ جانے والے مال کو کسی دوسرے کام میں صَرف(خرچ) کرنے کا وکیل بنانا جائز و درست ہے ۔

یہاں اگرچہ صراحتاً باقی بچ جانے والے چندے کو دوسرے کام میں صرف کرنے کا تذکرہ نہیں لیکن چونکہ سوال میں مذکور  کام مختلف مہینوں میں ہونگے تو دلالۃً یہی سمجھ آتا ہے کہ ہر  پہلے کام سے بچ جانے والی رقم دوسرے کام میں صَرف (یعنی خرچ) ہوگی اور یہاں اس کی اجازت دی گئی ہے۔

(2)پوچھی گئی صورت میں مسجد کا چندہ محفل کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں کہ اس صورت میں  جو چندہ مسجد کے لئے جمع کیا گیا ہے وہ صرف مسجد کی ضروریات و مَصَالح پر ہی خرچ ہوسکتا ہے، کسی دوسرے کام محفل وغیرہ میں خرچ کرنا ناجائز و گناہ ہے۔

وَاللہُ  اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


Share