Book Name:Sayyidon Ki Barkatain

یہاں حضرت فاروقِ اعظم  رَضِیَ اللہُ عنہ  نے جو جملہ ارشاد فرمایا، واقعی کمال کی بات ہے، اِحْسان ماننا اس کو کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:

اَنْتَ اَحَقُّ بِالْاِذْنِ مِنْہُ

یعنی آپ زیادہ حق دار ہیں کہ آپ کو تشریف لانے کی کُھلی اجازت دی جائے۔

کیوں؟ فرمایا: اس لیے  کہ

وَھَلْ اَنْبَتَ الشَّعْرُ فِی الرَّاْسِ بَعْدَ اللہِ اِلَّا اَنْتُمْ

ہمارے سَروں پر جو بال ہیں، اللہ پاک کے بعد آپ ہی لوگوں کے سبب اُگے ہیں۔

سُبْحٰنَ اللہ! کتنی بڑی بات ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں چھوٹی سے چھوٹی، بڑی سے بڑی جو نعمت عطا فرمائی ہے، محبوبِ کریم   صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   اور آپ کی آلِ پاک ہی کا صدقہ ہے۔  ([1])

پیارے اسلامی بھائیو!  یہ مُبالغہ نہیں ہے۔ واقعی سچّی بات ہے، ہمیں جو کچھ مِلا ہے، یہاں تک کہ سانس جو چل رہی ہے، یہ بھی سیّدزادوں کے نانا جان محبوبِ ذیشان   صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   ہی کا صدقہ ہے۔ بلکہ سچ کہوں؛ میں اور آپ تو کیا حیثیت رکھتے ہیں، اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السَّلام کو فرمایا تھا: لَو لَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُکَ یعنی اے آدم علیہ السَّلام!اگر مُحَمَّد   صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   نہ ہوتے تو میں آپ کو بھی  پیدا نہ فرماتا۔  ([2])

اعلیٰ حضرت  رحمۃُ اللہِ علیہ   لکھتے ہیں نا؛

ہوتے کہاں خلیل و بِنا، کعبہ و مِنٰی                                                 لَولاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے


 

 



[1]...الصواعق المحرقہ، الباب الحادی عشر، الفصل الاول...الخ، المقصد الخامس...الخ، صفحہ:222۔

[2]... دلائل النبوۃ للبیہقی، باب ماجاء تحدث ...الخ، جلد:5، صفحہ:489۔