Book Name:Sayyidon Ki Barkatain

اَہْلِ بیت کے ساتھ بھلائی کا عظیم اِنْعام

روایات میں ہے: حضرت عَلِی بن اِبراہیم  رحمۃُ اللہِ علیہ   نامی آٹے کے مالدار تاجِر تھے۔ ایک دِن اُن سے ایک سیّد صاحب نے کچھ آٹا مانگا۔ آپ تاجِر تھے تو کہا: رقم لائیے! سیّد صاحِب نے فرمایا: میرے پاس مال نہیں ہے۔ آپ میرا یہ قرض میرے نانا جان مُحَمَّد رسول اللہ   صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   کے نام لکھ لو۔ حضرت علی بن اِبراہیم  رحمۃُ اللہِ علیہ   نے اُن کو آٹا دے دیا اور یہ قرض اللہ پاک کے پیارے نبی   صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   کے ذِمَّے لکھ لیا۔ اِس مُعَاملے کا عِلْم جب مزید  سیّد زادوں کو ہوا تو اُنہوں نے بھی آٹا لیا، قرض محبوبِ ذیشان   صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   کے نام لکھ دیا گیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت علی بن ابراہیم  رحمۃُ اللہِ علیہ   کے پاس مال ختم ہو گیا اور وہ غریب ہو گئے۔

آپ اِسی پریشانی میں تھے کہ ایک رات کو سوئے تو قسمت جاگ گئی، رسولِ ذیشان، مکی مَدَنی  سلطان   صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   خواب میں تشریف لائے اور فرمایا: اگرتم نے میرے ساتھ معاملہ دُنیا کے لیے کیا ہے تو میں تُمہیں اِس کا پورا پورا بدلہ اَبھی دے دیتا ہوں اور اگر تم نے میرے ساتھ معامَلہ آخرت کے لیے کیا ہے تو صبر کرو ! بے شک میرے پاس بہت اچھا بدلہ ہے۔ یہ سُن کر  حضرت علی بن ابراہیم  رحمۃُ اللہِ علیہ   پر رِقّت طاری ہوگئی اور روتے روتے نیند سے بیدا ر ہوئے۔ اب اُن کا دِل دُنیا سے اُچاٹ ہو چکا تھا، چنانچہ جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف نکل گئے۔  کچھ دِنوں بعد وہ ایک پہاڑکے غار میں فوت شدہ حالت میں پائے گئے۔ لوگوں نے اُن کو اُٹھا یا اورنمازِ جنازہ وغیرہ کے بعد دفن کردیا۔ اُس رات 7نیک لوگوں نے خواب میں حضرتِ علی بن ابراہیم  رحمۃُ اللہِ علیہ   کو سبز