سلسلہ:ازواجِ انبیا
موضوع:حضرت عائشہ کے اعلیٰ اوصاف(قسط6)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اعلیٰ اوصاف کا ذکرِ خیر جاری ہے، پچھلی قسط میں آپ کے زہد و تقویٰ سے متعلق کچھ باتیں بیان ہوئیں، اس حوالے سے مزید کچھ باتیں ملاحظہ فرمائیے:
سیدہ عائشہ کا لباس:اُمُّ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہُ عنہا عام طور پر بغیر پائنچوں والا پاجامہ،کُرتا،دوپٹا اور نقاب زیبِ تن فرمایا کرتیں،([1]) نیز آپ اپنے کپڑے اس وقت تک استعمال کرنا پسند فرماتیں جب تک وہ پہنے جانے کے قابل رہتے، جیسا کہ ایک مرتبہ آپ اپنا بغیر پائنچوں والا پاجامہ سی رہی تھیں کہ کسی نے عرض کی:اے اُمُّ المومنین!کیا اللہ پاک نے مال و دولت کی کثرت نہیں فرمائی؟فرمایا:چھوڑو(ان باتوں کو)!وہ نئے کپڑوں کا حق دار نہیں جو پرانے کپڑے استعمال نہ کرے۔([2])
خوفِ خدا کا عالم: جب آپ نماز میں یہ آیت ِ مبارکہ تلاوت کرتیں
فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ(۲۷) (پ27،الطور:27)
(ترجمہ:تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں(جہنم کی)سخت گرم ہوا کے عذاب سے بچا لیا۔)
تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتیں:اے اللہ پاک! مجھ پر بھی احسان فرما اور مجھے(جہنم کی)سخت گرم ہوا کے عذاب سے بچا۔([3])اسی طرح آپ کے بھتیجے حضرت قاسم بن محمد فرماتے ہیں:میری عادت تھی کہ میں صبح اُٹھ کر سب سے پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ ُعنہا کو سلام کرتا۔ایک دن صبح اٹھا تو دیکھا کہ آپ چاشت کی نماز میں مشغول ہیں اور اس آیتِ مبارکہ
فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ(۲۷) (پ27،الطور:27)
کی بار بار تلاوت کر کے روئے جا رہی ہیں،میں فراغت کے انتظار میں کھڑے کھڑے تھک گیا، لیکن آپ اسی حالت میں رہیں تو میں بازار چلا گیا تاکہ ضرورت کی چیزیں لے کر آ جاؤں۔واپس آ کر دیکھا تو آپ مسلسل وہی آیتِ مُبارَکہ پڑھ رہی ہیں اور روئے جا رہی ہیں۔ ([4]) اسی طرح آپ کے متعلق یہ بھی مروی ہے کہ جب بھی یہ آیت تلاوت کرتیں
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ (پ22، الاحزاب:33)
(ترجمہ:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔)تو اس قدر روتیں کہ آنسووں سے دوپٹا تر ہو جاتا۔([5])
آپ صدیقہ پدر صدیق اور شوہر نبی
میکہ و سسرال اعلیٰ آپ خود ہیں بہتریں
سخاوتِ سیدہ عائشہ
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ ُعنہا پر بلاشبہ اعلیٰ اوصاف کو بھی ناز ہے کیونکہ آپ حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی لاڈلی و مقدس بیوی اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی لاڈلی شہزادی بھی ہیں کہ جنہوں نے کئی بار اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کر کے جود و سخاوت کی عظیم داستانیں رقم کیں۔چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ ُعنہا کو ان پاکیزہ ہستیوں کا فیضان خوب نصیب ہوا اور آپ بھی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہِ خدا میں بڑی بڑی رقمیں اور قیمتی چیزیں تک خیرات کرنے سے گریز نہ کرتیں۔آپ کی سخاوت کے چند ایمان افروز واقعات پیشِ خدمت ہیں:
حضرت عبدُ اللہ بن زبیر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں:میں نے اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اسماء رضی اللہُ عنہما سے زیادہ سخی عورتیں نہیں دیکھیں۔([6]) اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سخاوت اس درجہ تھی کہ ان کے بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ ُعنہما نے اپنے زمانۂ خلافت میں ان کے تصرفات محجور کر دئیے(یعنی روک دئیے) تھے۔([7]) ہزارہا روپے ایک جلسے میں محتاجوں کو تقسیم فرما دیتیں۔([8]) آپ اپنے پاس کچھ نہ رکھتیں جو کچھ بھی آتا اس کو صدقہ کر دیتیں۔([9])
دوسروں کی خاطر قرض لیتیں:اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا(دوسروں کی خاطر)کثرت سے قرض لیتی تھیں۔ آپ سے عرض کی گئی کہ آپ کس مقصد کے لئے قرض لیتی ہیں؟ تو فر مایا:میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو بندہ اپنا قرض ادا کرنے کی نیت رکھتا ہو تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے لئے ایک مدد گار ہوتا ہے۔لہٰذا میں اسی مددگار کی تلاش میں ہوں۔([10]) ایک روایت میں یوں ہےکہ اللہ پاک اس بندے کے لئے رزق کا سبب پیدا فرما دیتا ہے۔([11])
جو پاس ہوتا راہِ خدا میں دے دیتیں:اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو اٹھائے ہوئے آئی،میں نے اسے تین کھجوریں دے دیں۔اُس عورت نے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دی اور ایک خود کھانے کے ارادے سے اپنے منہ کی طرف لے جانا ہی چاہتی تھی کہ اُس کی دونوں بیٹیوں نے تیسری کھجور بھی مانگ لی تو اس نے اپنی کھجور بھی دو حصوں میں بانٹ کر اپنی بچیوں کو دے دی۔مجھے اس کا یہ عمل بہت پسند آیا اور جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اِس بات کا ذکر کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک نے اس عورت کے اس عمل کے سبب اس پر جنت واجب کر دی ہے۔ یا(یہ فرمایا کہ)اس عورت کو جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔([12]) اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ آپ سے کسی مسکین نے کچھ مانگا،اس وقت آپ روزہ دار تھیں اور پاس صرف ایک ہی روٹی تھی،آپ نے خادمہ سے فرمایا کہ یہ روٹی اس مسکین کو دے دو۔اس نے عرض بھی کی کہ پھر روزہ کس سے افطار کریں گی؟مگر آپ نے روٹی اس مسکین کو دینے کا حکم دیا اور اپنے لئے کچھ بھی بچا کر نہ رکھا، پھر شام کو اہلِ بیت میں سے یا کسی نے آپ کو بکری کے گوشت کا ہدیہ بھیجا تو آپ نے خادمہ کو بلا کر ارشاد فرمایا:اس میں سے کھا ؤ!یہ تمہاری روٹی سے بہتر ہے۔([13]) ایک مرتبہ آپ نے اپنا مال و اسباب ایک لاکھ درہم میں بیچ کر رقم راہِ خدا میں تقسیم کر دی، پھر جو کی روٹی سے روزہ افطار کیا۔([14])
حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ وقتاً فوقتاً آپ کی خدمت میں تحائف بھیجا کرتے تھے، مگر وہ سب بھی آپ راہِ خدا میں دے دیتیں۔مثلاً ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ ُعنہ نے آپ کو ایک لاکھ مالیت کا ہار بھیجا جسے آپ نے دیگر امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا۔([15]) یہ ہار سونے کا تھا جس میں قیمتی پتھر لگے ہوئے تھے۔([16]) ایک مرتبہ ایک لاکھ درہم پیش کئے گئے تو آپ نے شام ہونے سے پہلے ہی راہِ خدا میں تقسیم کر دیے۔خادمہ نے عرض کی:کاش! آپ ان میں سے ہمارے لئے ایک درہم کا گوشت ہی خرید لیتیں!تو ارشاد فرمایا:اگر پہلے بتا دیتیں تو میں تمہیں بھی کچھ دے دیتی۔([17])ایک مرتبہ کچھ کپڑے،چاندی اور دیگر سامان پیش کیا گیا جو آپ کے حجرے کے پاس رکھ دیا گیا،جب آپ باہر تشریف لائیں تو اسے دیکھ کر رونے لگیں۔پھر فرمایا:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس قسم کا مال و اسباب نہیں پایا۔پھر آپ نے وہ سارا سامان راہِ خدا میں تقسیم کردیا اور اس میں سے کچھ بھی بچا کرنہ رکھا حالانکہ اس وقت آپ کے پاس ایک مہمان بھی ٹھہرا ہوا تھا۔ آپ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے(دنیا سے پردہ فرمانے کے)بعد کثرت سے روزے رکھا کرتی تھیں،جب افطار کا وقت ہوتا تو روٹی اور زیتون کے ساتھ روزہ افطار کرتیں۔(ایک بار)ایک عورت نے عرض کی:اے اُمُّ المومنین!جو مال آپ کو ہدیہ کے طور پر دیا گیا اگر آپ حکم دیتیں تو اس میں سے ہمارے لئے ایک درہم کا گوشت خرید لیا جاتا تاکہ ہم اسے کھاتیں۔ فرمایا: یہی کھاؤ!اللہ پاک کی قسم!اس میں سے ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا۔
حضرت عبدُ الرحمن بن قاسم رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:سیدہ عائشہ رضی اللہ ُعنہا کو کسی نے انگوروں کی کچھ ٹوکریاں پیش کیں تو آپ نے انہیں بھی تقسیم کر دیا۔مگر خادمہ نے بتائے بغیر اس میں سے ایک ٹوکری اٹھا لی اور رات کو جب وہ ٹوکری لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا:یہ کیا ہے؟تو اس نے عرض کی:میں نے ایک ٹوکری اپنے کھانے کے لئے اٹھا لی تھی۔اس پر آپ نے اس سے فرمایا:تو نے ایک گُچھا کیوں نہ اٹھایا (پوری ٹوکری کیوں اٹھا لی)؟اللہ پاک کی قسم! میں اس میں سے کچھ نہیں کھاؤں گی۔([18])
ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہُ عنہ نے مال کے دو تھیلے بھیجےجن میں تقریباً 80ہزار یا ایک لاکھ درہم ہوں گے، اس دن آپ روزے سے تھیں، آپ نے ایک بڑا تھال منگوا کر وہ مال اس میں رکھا اور تقسیم کرنے لگیں یہاں تک کہ شام تک ایک درہم بھی باقی نہ بچا۔ پھر جب خادمہ سے فرمایا:افطاری کا سامان لے آؤ!تو وہ روٹی اور زیتون کا تیل لے کر حاضر ہوئی،اس وقت آپ کی خدمت میں حضرت اُمِّ ذَرَّہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں، انہوں نے عرض کی:آج آپ نے جو مال تقسیم کیا ہے اس میں سے کچھ بچا کر ہمارے لئے تھوڑا سا گوشت ہی خرید لیتیں تا کہ اس سے روزہ افطار کر لیا جاتا۔تو آپ نے فرمایا:مجھے شرمندہ نہ کرو!اگر مجھے یاد دلا دیتیں تو میں ضرور کچھ نہ کچھ رکھ لیتی۔([19])
جلیلُ القدر تابعی و مُحدِّث حضرت عُروَہ بن زُبَیر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ ُعنہا کو 70ہزار درہم راہِ خدا میں صدقہ کرتے دیکھا حالانکہ اُن کی قمیص کے مبارَک دامن میں پیوند لگا ہوا تھا۔([20])ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ قسم کھائی تو اس کے کفّارے میں چالیس غلام آزاد فرمائے۔([21])
پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتیں تو!سیدہ عائشہ رضی اللہُ عنہا جب کبھی پیٹ بھر کر کھا لیتیں تو رونے لگتیں۔وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: مجھے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وہ حالت یاد آ جاتی ہے جس پر دنیا سے جدائی فرمائی کہ کبھی بھی دن میں دو مرتبہ روٹی اور گوشت سے پیٹ بھرنے کی نوبت نہ آئی۔([22]) ایک روایت میں ہے:حضورنے کبھی بھی مسلسل تین دن تک پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا حالانکہ کھا سکتے تھے مگر ایثار کر دیا کرتے تھے۔([23])
عائشہ صدیقہ روتی تھیں نبی کی بھوک پر
ہائے!بھرتی ہیں غذائیں ہم پیٹ میں ٹھونس کر
یہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ ُعنہا کا عشقِ رسول ہے کہ اگر کبھی پیٹ بھر کر کھا بھی لیں تو غمِ مصطَفٰے میں روتیں اور آہ!ہم گنہگاروں کا حال یہ ہے کہ گلے تک خوب ڈٹ کر کھا لیں اور پیٹ مکمل بھر جائے مگر دل نہ بھرے۔
اہم وضاحت:یاد رہے!جب بھی روایات میں اللہ والوں کے پیٹ بھر کر کھانے کا ذکر پائیں تو اس سے ایک تہائی پیٹ کا کھانا ہی مراد لینا چاہیے، کیونکہ ہمارے پیٹ بھر کر کھانے اور ان کے پیٹ بھر کر کھانے میں فرق ہوتا ہے۔جیسا کہ مولانا روم رحمۃ اللہِ علیہ مثنوی شریف میں لکھتے ہیں:
کارِ پاکاں را قِیاس اَز خود مَگیر گرچہ باشد در نوشتن شیر شِیر
ترجمہ:پاک لوگوں کے کام کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو۔اگرچہ لکھنے میں شَیر (درندہ) اور شِیر(دودھ) برابر ہیں۔([24])
[1]طبقات ابنِ سعد،8/55
[2] طبقات ابن سعد،8/58
[3] شعب الایمان، 2/ 375، حدیث:2092
[4] احیاء العلوم،5/147
[5] الزہد لامام احمد،ص185، حدیث:911
[6] تاریخ ابنِ عساكر،69/19
[7] بخاری،4/119، حدیث:6073-6075ماخوذاً
[8] فضائل دعا،ص277
[9] بخاری، 2/475، حدیث:3505
[10] مسند امام احمد،40 / 497،رقم:24439
[11] معجم اوسط،5/360،حدیث:7608
[12] مسلم،ص1085، حدیث:6694
[13] مؤطا امام مالک،2/473،رقم:1929
[14] حلیۃ الاولیاء،2/58، رقم:1474
[15] سیر اعلام النبلاء،3/464
[16] صفۃ الصفوۃ، 2/21
[17] تاریخ ابنِ عساکر، 59/192
[18] حلیۃ الاولیاء،2/59،رقم:1475
[19] الزھد لھناد،1/337،حدیث: 619
[20] مدارج النبوت،2/473
[21] بخاری، 4/119، حدیث:6073-6075
[22] ترمذی، 4/159، حدیث:2363
[23] ترغیب وترہیب، 4/92، حدیث:86
[24] مثنوی مولوی معنوی،1/58
Comments