حساب کتاب(قسط2)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ:ایمانیات

موضوع:حساب کتاب(قسط2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج عمل کل حساب:یقیناً حساب کتاب لئے جانے کا معاملہ بڑا کٹھن ہے، بروزِ قیامت ایک ایک لفظ کا حساب ہو گا۔

ذرا سوچئے!اگر ہم سے اس معاملے میں سختی کی گئی تو ہمارا کیا بنے گا؟لہٰذا ابھی وقت ہے اسے غنیمت جانتے ہوئے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لیجئے اور خوب نیکیاں کمانے میں لگ جائیے، کیونکہ آج عمل کا دن ہے کل حساب ہو گا جیسا کہ ایک روایت میں ہے:تم عمل کے دن میں ہو جس میں حساب نہیں اور عنقریب تم حساب کے دن میں ہو گے جس میں عمل نہ ہو گا۔([1])اور قیامت کے دن ہمارے اعمال نامے کھولے جائیں گے جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْﭪ(۱۰)

(پ30، التکویر:10)

ترجمہ:اور جب نامَۂ اعمال کھولے جائیں گے۔

ان اعمال ناموں کا ذکر قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے، مثلاً ایک مقام پر ہے:

وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(۱۳) اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ(۱۴)

(پ15،  بنی اسرائیل:13، 14)

ترجمہ:اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے میں لگا دی ہے اور ہم اس کیلئے قیامت کے دن ایک نامَۂ اعمال نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔( فرمایا جائے گا کہ)اپنا نامَۂ اعمال پڑھ،آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔

یاد رہے!محشر کے دن انبیائے کرام علیہمُ السّلام کے علاوہ کچھ ایسے خوش نصیب لوگ بھی ہوں گے جنہیں کسی قسم کا کوئی غم ہو گا نہ ان کا کوئی حساب کتاب ہو گا،بلکہ وہ بغیر حساب کے محض اللہ پاک کے فضل و کرم سے جنت میں جائیں گے۔جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:انبیا،شہدا بچے اور مَوْؤدہ (زندہ دفن کی جانے والی بچی) بغیر حساب جنت میں جائیں گے۔([2])اسی طرح امام میمون نسفی بھی بحر الکلام میں فرماتے ہیں:انبیائے کرام،مسلمانوں کے فوت شدہ بچوں اور عشرہ مبشرہ سے حساب کتاب نہ ہو گا۔([3])

الغرض بلا حساب جنت میں جانے والوں کی ایک کثیر تعداد کا ذکر مختلف روایات میں ملتا ہے،چنانچہ ایسی چند روایات پیشِ خدمت ہیں:

پرہیز گاروں کا حساب نہ ہو گا:حضرت موسیٰ علیہ السّلام  سے اللہ پاک کا یہ فرمان منقول ہے کہ میں ہر شخص سے اس کے اعمال کا حساب لوں گا اور اس کے معاملات کی تفتیش کروں گا سوائے پرہیز گاروں کے کہ انہیں حساب کے لئے کھڑا کرنے میں مجھے حیا آتی ہے۔([4])ایک روایت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے اللہ!تو نے نیک بندوں کے لئے کیا تیار کیا ہے اور تو انہیں کیا بدلہ عطا فرمائے گا؟تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:دنیا سے بے رغبتی رکھنے والوں کے لئے  میں اپنی جنّت کو مباح کر دوں گا وہ اس میں جہاں چاہیں ٹھکانا بنا لیں اور اپنی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرنے والوں کو یہ انعام دوں گا کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو میں پرہیز گاروں کے علاوہ ہر بندے سے سخت حساب لوں گا کیونکہ میں پرہیز گاروں سے حیا کروں گا اور انہیں عزت و اکرام سے نوازوں گا، پھر انہیں بغیر حساب جنت میں داخل فرماؤں گا اور میرے خوف سے رونے والوں کیلئے رفیقِ اعلیٰ ہو گا جس میں ان کا کوئی شریک نہ ہو گا۔([5])اسی طرح ایک روایت کے مطابق قیامت کے دن متقین کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور یہ لوگ اس کے پیچھے چلتے ہوئے بغیر حساب و کتاب جنت میں اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں گے۔([6])

شہیدوں کا حساب نہ ہو گا:اللہ پاک کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السّلام سے اس آیتِ مبارکہ:

وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ- (پ24،الزمر:68)

 کے متعلق پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جنہیں اللہ پاک بےہوش نہ کرنا چاہے گا؟انہوں نے عرض کی:وہ شہدا ہیں، اللہ کریم انہیں اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے عرش کے ارد گرد ہوں گے،میدانِ محشر میں فرشتے ان کے پاس یاقوت کی عمدہ اونٹنیاں لائیں گے جن کی لگامیں سفید موتی کی اور کجاوے سونے کے ہوں گے، لگاموں کی ڈوریاں باریک اور موٹے ریشم کی ہوں گی اور ان پر ڈالا گیا قالین ریشم سے زیادہ نرم و ملائم ہو گا، لوگوں کی حد نگاہ تک اس کا قدم پڑے گا۔شہدا جنت میں گھوڑوں پر سیر کرتے ہوں گے اور لمبی سیر و تفریح کے بعد کہیں گے:ہمیں ہمارے رب کی بارگاہ میں لے چلو تا کہ ہم دیکھیں کہ وہ اپنی مخلوق کے درمیان کیسے فیصلہ فرماتا ہے؟ربِّ کریم ان کی طرف دیکھ کر خوش ہو گا اور جب اللہ پاک کسی بھی موقع پر کسی بندے سے خوش ہو گا تو اس سے حساب نہیں لے گا۔([7]) ایک روایت میں ہے کہ کسی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے افضل شہدا کے متعلق پوچھا تو حضور نے ارشاد فرمایا:وہ شہید افضل ہیں جو دشمن سے مقابلہ ہو تو جنگ سے منہ نہ پھیریں یہاں تک کہ شہید کر دئیے جائیں،یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے عالیشان بالا خانوں میں چلتے ہوں گے اور ان کا ربّ ان کی طرف دیکھ کر خوش ہو گا اور تیرا ربّ جب کسی بندے کی طرف دیکھ کر خوش ہو تو اس سے حساب نہیں لے گا۔([8])

مسلمانوں کے فوت شدہ ناسمجھ بچوں کا بھی حساب نہ ہو گا: حضرات انبیائے کرام،مومنوں کے فوت شدہ ناسمجھ بچے، دیوانے جو دیوانگی میں فوت ہوئے ان کا کچھ حساب نہیں۔([9]) جیسا کہ ایک روایت میں ہے:مسلمانوں کے بچے قیامت کے دن موقف(یعنی میدانِ محشر)میں اکٹھے ہوں گے اس وقت اللہ پاک فرشتوں سے فرمائے گا:ان کو جنت میں لے جاؤ۔جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑے ہوں گے تو خازنِ جنت حضرت رضوان فرمائیں گے:مرحبا!خوش آمدید!اے مسلمانوں کے بچو!تم سب جنت میں داخل ہو جاؤ تم پر کوئی حساب نہیں۔([10])

حج و عمرہ کی حالت میں مرنے والوں کا بھی حساب نہ ہو گا:جس شخص کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حَرَمین شریفین یعنی مکے یا مدینے میں موت آ گئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اُس پر حساب ہو گا نہ عذاب۔([11])  ایک روایت میں ہے:وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔([12])

فقرا/مہاجرین کا بھی حساب نہ ہو گا:سارے مہاجرین فقرا بغیر حساب و عذاب جنتی ہیں۔([13])ایک روایت میں ہے:اللہ پاک نے فقرا پر کیسا انعام فرمایا ہے کہ بروزِ قیامت وہ ان سے زکوٰۃ، حج، جہاد اور صلہ رحمی کے بارے میں کوئی حساب نہیں لے گا، سوال تو ان بے چاروں یعنی مالداروں سے ہو گا۔([14])  ایک روایت میں ہے:بروزِ قیامت فقرا مہاجرین مال داروں سے40سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے([15])اور دیگر لوگوں کو دنیا میں جو کچھ عطا کیا گیا تھا اس کے حساب کتاب کے لئے روک لیا جائے گا۔([16])ایک روایت میں ہے کہ جب فقرا مال داروں سے آدھا دن پہلے جنت کی طرف جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا:لوگوں کے حساب سے پہلے کہاں جا رہے ہو؟ تو وہ کہیں گے:ہمارے پاس اموال نہ تھے جو ہمیں حساب میں مشغول رکھیں۔([17]) (جاری ہے۔۔۔)



[1]موسوعہ ابن ابی الدنیا،3/304،حدیث:3

[2] مراۃ المناجیح،5/458

[3] بحر الکلام، ص193

[4] احیاء العلوم،4/198

[5] معجم اوسط،3/84، حدیث:3937

[6]احیاء العلوم،4/198

[7] موسوعہ ابن ابی الدنیا، 6/369،حدیث:242

[8] مسند امام احمد، 37/144،حدیث:22476

[9] مراۃ المناجیح،7/465

[10] نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں،ص70

[11] اخبار مکہ،3/160، حدیث:1918

[12] Bمصنف عبد الرزاق،9/174،حدیث:3886

[13] مراۃ المناجیح،7/60

[14] حلیۃ الاولیاء،7/ 428، رقم:11102

[15] مسلم،ص1217،حدیث:7463

[16] البدور السافرہ،ص185، حدیث:525

[17] البدور السافرہ، ص 185، حدیث:526


Share