نیکی اور گناہ کا خیال

عظیم فقیہ حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید محمد بن محمد بن مصطفےٰبن عثمان خادمی حَنَفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (سالِ وفات1176ھ)بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیَہ“ میں لکھتے ہیں:دل میں گناہ کاخیال آنےکی پانچ قسمیں ہیں: (1) ”ھَاجِس“ جو خیال دل میں آئے (2)”خَاطِر“ جو دل میں بار بار آئے (3)”حدیثِ نَفْس دل میں اس کام کے کرنے یا نہ کرنے کا تَرَدُّد ہو (4)”ھَمّ“ اس کام کو کرنے کا خیال غالب ہوجائے (5)”عَزْم“ اس کام کو کرنے کا خیال مزید مضبوط ہوجائے لیکن جَزْم نہ ہو۔ ان کے احکامھَاجِس“ پر مُوَاخَذَہ (یعنی پکڑ) نہ ہونے پر سب کااِجماع ہے کیونکہ اس سے بچنا ناممکن ہے۔ اس کے بعد ”خاطر“ ہے جس کے دُور کرنے پر انسان قادِر ہوتا ہے کہ بُرائی کا خیال آتے ہی اس کی طرف سےتوجّہ ہٹا دے لیکن”خاطِر“اور”حَدیثِ نَفْس حدیثِ مبارَکہ([1]) کی وجہ سے مُعاف ہے، جب حدیثِ نفس مُعاف ہے تو اس سے پہلے والے خیالات بدرجۂ اَولیٰ مُعاف ہیں۔ نیکی کا خیال اگر خیالات کی یہ تینوں قسمیں (یعنی ہاجِس، خاطِر اور حدیثِ نفس) نیکی کے بارے میں ہوں تو نیکی کرنےکا اِرادہ نہ ہونے کی وجہ سے ان پر ثواب نہیں ملے گا، بہرحال جب ”ھَمّ“ نیکی کے بارے میں ہو تو نیکی لکھی جائے گی اور اگر گناہ کے بارے میں ہو تو گناہ نہیں لکھا جائے گا پھر اگر اللہ پاک کی رضا کے لئے گناہ سے باز رہے تو نیکی لکھی جائے گی اور اگر اس نے گناہ کرلیا توایک ہی گناہ لکھا جائے گا، جبکہ عزم پر مُواخَذَہ (یعنی پکڑ، گرفت) ہے۔ (بریقہ محمودیہ فی شرح طریقہ محمدیہ، 2/141) قلبی خیالات کی مثال اِن پانچ مَراتِب کو اس مثال سے سمجھئے مثلاً ”کسی کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ وہ چوری کرے تو یہ خیال ھَاجِس ہے، اگر یہ خیال بار بار آئے تو ”خَاطِر“ ہے، جب اس کا ذہن چوری کی طرف مائل ہوجائے اور وہ یہ مَنصوبَہ بنائے کہ فُلاں مکان میں چوری کرنی ہے، اس کی فُلاں دیوار توڑنی ہے، فُلاں راستے سے واپس آنا ہے وغیرہ تو یہ ”حَدیثِ نَفْس“ ہے اور جب وہ چوری کا اِرادہ کر لے اور غالِب جانب چوری کرنے کی ہو لیکن مَغْلُوب گمان یہ ہو کہ کہیں پکڑا نہ جاؤں لہٰذا چوری نہ کرنا ہی بہتر ہے، تو یہ ”ھَمّ“ ہے اور جب یہ مغلوب جانب بھی زائل ہوجائے اور وہ پختہ اِرادہ کر لے کہ چوری ضَرور کروں گا، چاہے پکڑا ہی کیوں نہ جاؤں تو یہ ”عَزْم“ ہے۔ پہلے چار مَرْتَبوں پر مُوَاخَذَہ (یعنی پکڑ) نہیں جبکہ پانچویں مرتبے یعنی عَزْم پر مُوَاخَذَہ ہے اگرچہ وہ اپنے ”عَزْم“ پر کسی وجہ سے عمل نہ کر سکے، مثلاً چوری کے ”عَزْم“ سے وہ کسی مکان  میں داخل ہوا تو معلوم ہو اکہ یہاں تو کچھ ہے ہی نہیں، لہٰذا واپس آگیا تو اب اسے چوری کا گناہ ملے گاکیونکہ یہ چوری کا پختہ اِرادہ کر چکا تھا اگر یہاں مال ہوتا  تو ضرور چوری کرتا۔ نیکی کی نیّت  کرنا بھی نیکی ہے مسلم شریف کی ایک طویل حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے کہ (اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:) مَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃًفَإِنْ عَمِلَہَا کُتِبَتْ لَہُ عَشْرًا وَمَنْ ہَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا لَمْ تُکْتَبْ شَیْئًا، فَإِنْ عَمِلَہَا کُتِبَتْ سَیِّئَۃً وَاحِدَۃً یعنی جو کوئی کسی نیکی کا ارادہ کرے پھر وہ نیکی نہ کرے  تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جائے گی پھر اگر وہ یہ کر بھی لے تو اس کے لئے دس لکھی جائیں گی اور جو گناہ کا ارادہ کرے پھر نہ کرے تو اس کے لئے کچھ نہیں لکھا جائے گاپھر اگر وہ کرلے تو اس کے لئے ایک ہی گناہ لکھا جائے گا۔ (مسلم، ص87، حدیث:411 ملتقطاً)

مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنَّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:’’ہَمّ‘‘سے مراد ہے کچا خام ارادہ یعنی جو شخص کسی نیکی کا  غیر پُخْتہ اِرادہ کرے تب بھی اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جائے گی اگرچہ وہ کسی شرعی عُذْر یا ظاہری وجہ سے نہ کرسکے، جیسے کسی نے حج کا ارادہ کیا مگر قُرْعَہ میں نام نہ نکلا تو اسے ارادہ کا ثواب مل گیا کہ نیکی کا ارادہ کرنا بھی نیکی ہے بلکہ نیکی کی آرزو اور تمنّا کرنا بھی نیکی ہے، حُجّاج حج کو جارہے ہیں ایک غریب آدمی انہیں دیکھ کر اپنی محرومی پر آنسو بہارہا ہے تمنّا کررہا ہے کہ میرے پاس پیسا ہوتا تو میں بھی جاتا اسے ثواب مل گیا۔ ایک شخص حضراتِ صحابۂ کرام (علیہمُ الرِّضوان) کی خوش نصیبی میں غور کر رہا ہے کہ وہ کیسے خوش بخت تھے کہ حضور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے دیدار سے مشرّف ہوئے اور سوچتا ہے کہ  ؎

جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لِپَٹ کے قدموں سے لیتے اُترن

مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامُرادی کے دن لکھے تھے

اسے اس تمنا کا ثواب مل رہا ہے اور اِنْ شَآءَ اللہ(عَزَّ  وَجَلَّ) کل اسے صحابۂ کرام (علیہمُ الرِّضوان) کے ساتھ حَشْر نصیب ہوگا۔ ”اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی“کے تحت مفتی صاحب لکھتے ہیں: یعنی ارادۂ نیکی ایک نیکی ہے اور عملِ نیکی دس نیکیاں ہیں۔ یہ اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کا کرم ہے پھر نیکی کے ہرعمل پر الگ ثواب نماز کا ارادہ کرنا الگ نیکی، وضو کرنا علیٰحدہ نیکی، مسجد کو چلنا اور نیکی بلکہ ہر قدم الگ نیکی وہاں نماز کے انتظار میں بیٹھنا الگ نیکی نماز کے بعد دعا مانگنا الگ نیکی۔ نماز تو مستقل علیحدہ نیکی ہے ہم کام کریں اپنی حیثیت کے لائق وہ عطا فرماتا ہے، اپنی شان کے شایان۔ مزید فرماتے ہیں: ’’ہَمّ‘‘اور ”عَزْم“ میں فرق ہے، ’’ہَمّ‘‘سے مراد ہے ”خیالِ گناہ“، یہ گناہ نہیں ہے بلکہ اس سے باز آجانا توبہ کرلینا نیکی ہے۔(مراٰۃ  المناجیح،ج 8،ص152،151ماخوذاً)

اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا        تم نے تو چلتے پِھرتے مُردے جِلا دیے ہیں

(حدائقِ بخشش،ص101)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…رکن مجلس المدینۃالعلمیہ ،باب المدینہ کراچی

 

 

 

 



[1] ۔۔۔ فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: میری اُمّت کے دلوں میں جو وسوسے آتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان سے تَجاوُز فرماتا ہے جب تک کہ وہ انہیں عمل میں نہ لائیں یا انہیں اپنے کلام میں نہ لائیں۔(بخاری،ج 2،ص153، حدیث:2528)


Share

نیکی اور گناہ کا خیال

 

شیخ ِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ محمد الیاس عطؔار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے گزشتہ ماہ درج ذیل مَدَنی رسائل پڑھنےکی ترغیب دلائی اور  پڑھنے  والوں کو دُعاؤں سے نوازا:(1) یا ربَّ المصطَفے!جو  کوئی رسالہ ”مچھلی کے عجائبات“ کے52صفحات پڑھ یا سُن لے اُسے جنّت میں بے حساب داخِلہ دے کر مچھلی کی کلیجی کا کنارَہ کھانا نصیب فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ کارکردگی : تقریباً2 لاکھ48ہزار875اسلامی بھائیوں جبکہ تقریباً2لاکھ7ہزار685اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ (2)یاربَّ المصطَفٰے! جوکوئی رسالہ ”سیاہ فام  غلام“ کے 48 صفحات پڑھ یا سُن لے  اُسے عاشقِ دُرُود و سلام بنا۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ کارکردگی: تقریباً2لاکھ96ہزار791 اسلامی بھائیوں اورتقریباً2 لاکھ 11 ہزار 13اسلامی بہنوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا۔ (3)یاربَّ الْمصطَفٰے! جوکوئی رسالہ ”صبحِ بہاراں“ کے 34 صفحات پڑھ یا سُن لے  اُسے عشقِ رسول میں رونے والی آنکھیں عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ کارکردگی: تقریباً  3 لاکھ 15ہزار592اسلامی بھائیوں اور تقریباً2لاکھ98ہزار72 اسلامی بہنوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا۔(4)یا اللہ! جو کوئی ”دودھ پیتا مَدَنی مُنّا“ نامی رسالے کے 46صَفْحات پڑھ یا سُن لے  اُسے اُس کے بچّوں کا سُکھ نصیب فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ کارکردگی: تقریباً 3 لاکھ 41ہزار491 اسلامی بھائیوں اور تقریباً 3لاکھ 23ہزار 176اسلامی بہنوں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا۔


Share