اسلام کا نظام
اسلام اور تعلیم(قسط:04)
*مولانا عبدالعزیز عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء
(9)منہجِ تدریس
اندازِ گفتگو اور پڑھانے کا انداز عام فہم اور آسان ہونا چاہئے تاکہ سامعین مطلب سمجھ سکیں اور اگر کچھ پوچھنا چاہیں تو سوال بھی کر سکیں تاکہ ان کو تشفی بخش جوابات ملیں ان کے ذہنوں میں موجود اشکالات دور ہوں،پیچیدگیاں حل ہوں، ان کی حوصلہ افزائی ہو تاکہ بعد میں صحیح طریقے سے سبق یا د کرسکیں اور ضرورت کے پیش نظر یاد دہانی نوٹس بھی بناتے رہنا چاہئے تاکہ بعد میں سبق سمجھنے،یاد کرنے اور آپس میں حلقوں میں دہرائی کرنے میں آسانی ہو اور سبق کو تکرار کے ذریعے محفوظ کریں۔
طریقۂ تعلیم: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب کوئی بات کرتے تو ٹھہر ٹھہر کر کرتے۔([1]) اور اندازِ گفتگو عام فہم ہوتا جس کو ہر شخص آسانی سے سمجھ جاتا۔([2])
طلبا کی حوصلہ افزائی کیجیے:ایک مرتبہ حضور نبیّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے کاشانۂ اقدس سے باہر تشریف لائے تو مسجد میں دو حلقے دیکھے ایک حلقے کے لوگ تلاوت ودعا میں مصروف تھے اور دوسرے حلقے کے لوگ تعلیم وتعلم میں مصروف تھے آپ علیہ السّلام نے دونوں کی تحسین فرمائی اور فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ لوگ قراٰن پڑھتے ہیں اور اللہ سے دعا مانگتے ہیں، اگر چاہے تو ان کو عطا فرمائے اور اگر چاہے تو روک لےاوریہ لوگ سیکھتے ہیں اور سکھاتے ہیں پھر فرمایا: میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں پھر علمی مجلس میں بیٹھ گئے۔([3])
تعلیمی حلقے: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہُ عنہفرماتے ہیں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسجد میں داخل ہوئے جہاں صحابہ کرام کے حلقے تھےآپ نے فرمایاکہ کیا بات ہے تم لوگ جداجدا ہو( یعنی ایک ساتھ بیٹھو)۔([4])
(10)کلاس کا بہترین نظم و ضبط
کلاس کا بہترین اور منظم ماحول ہونا چاہئے جس میں صفائی ستھرائی، یونیفارم،بیٹھنے اٹھنے، مطالعہ اور گفتگو کرنے کا حسین اور دلکش منظر ہو، تعلیمی معاملات میں صرف نرمی نہیں بلکہ سختی بھی کی جا ئے اور ساتھ ساتھ طلبا کی صحت کا بھی خیال رکھا جائے تاکہ وہ محنت، کوشش اور دلجمعی سے علم حاصل کریں اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب ہو جائیں۔
کلاس کا بہترین ماحول:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں ایک قاری صاحب قراٰنِ مجید پڑھا رہے تھے، اس دوران حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے پاس تشریف لائے تو قاری صاحب آپ کو دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ آپ علیہ السّلام نے سلام کر کے پوچھا کہ تم لوگ کیا کررہے ہو؟ ہم نے کہا: یَا رَسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قاری صاحب قراٰن مجید پڑھ رہے ہیں اور ہم سن رہے ہیں۔ہمارا جواب سُن کر حضور علیہ السّلام نے فرمایا: اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے جن کے ساتھ مجھے بیٹھنے کا حکم دیا ہے پھر ہمارے درمیان بیٹھ گئے اور ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس طرح بیٹھو اور حاضرین مجلس اس طرح حلقہ بنا کر بیٹھ گئے کہ سب کا چہرہ آپ کی طرف ہوگیا۔([5])
لباس:امیرُ المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: مجھے یہ پسند ہے کہ میں قاری صاحب کو سفید لباس میں دیکھوں۔([6])
(11)تعلیمی اوقات میں وسعت و گنجائش
لوگوں کو علم سے آراستہ کرنے کے لئے ان کی ضروریات اور مصروفیات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تعلیمی اوقات مختلف ہو سکتے ہیں صبح، شام اور ہفتہ وار بھی کر سکتے ہیں تاکہ ہر شخص اپنی مصروفیات اور معمولات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین وقت کا تَعَیُّن کر سکے اور علم سے مستفید ہو۔
صبح کے وقت کلاس:حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں جب حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فجر کی نماز ادا فرمالیتے تو صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان آپ کی طرف مائل ہو جاتے کوئی قراٰن مجید کے بارے میں پوچھتا،کوئی فرائض کے بارے میں معلوم کرتا اور کوئی خواب کی تعبیر معلوم کرتا۔([7]) حضرت سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہُ عنہجب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو صفوں میں موجود ایک ایک آدمی کو قراٰن پاک پڑھاتے۔([8])
رات کے وقت کلاس:حضرت انس رضی اللہُ عنہفرماتے ہیں سترکے قریب اصحابِ صفہ رات کے وقت تعلیم حاصل کرتے تھے، جب رات ہوجاتی تو یہ لوگ مدینہ شریف میں ایک معلم کے پاس جاتے اوررات بھر پڑھتے رہتے۔([9])
ہفتہ وار کلاس:حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ ہفتے میں صرف ایک دن جمعرات کو لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتے، ایک شخص نے کہا اے ابو عبدالرّحمٰن! آپ ہمیں روزانہ وعظ و نصیحت کیا کیجئے تو آپ نے فرمایا: میں اس لئے نہیں کرتا کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ گے۔ ([10])
(12)تعلیم میں مختلف دورانیے کی گنجائش
علم کے حصول کے لئے طویل وقت اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر شخص کو زندگی بسر کرنے میں مختلف مسائل اور معاملات درپیش ہوتے ہیں اور مختلف قسم کی گھریلو ذمہ داریاں بھی وابستہ ہوتی ہیں طویل عرصے کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تعلیم حاصل کرنے والے بہت ہی کم افراد ہوں گے اور اشاعت علم محدود ہو کر چند افراد تک رہ جائےگی تو لوگوں کی ضروریات اور مصروفیات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مختلف قسم کے مختصر کورسز تیار کئے جاتے ہیں اور یہ گھنٹوں، دنوں، ہفتوں،مہینوں اور سالوں پر محیط ہوتے ہیں تاکہ ہر شخص اپنے ذوق و شوق اور ضرورت کے مطابق علم سے وابستہ رہے اور جو اعلی تعلیم کے متلاشی ہوتے ہیں ان کے لئے ہمیشہ اعلیٰ تعلیم کی راہیں ہموار اور راستے کشادہ ہوتے ہیں۔
مختصر کورس:حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہُ عنہکو بیس دن علم سکھانے کے بعد فرمایا: تم اپنے خاندان میں واپس جاؤ اور ان کو شریعت کے احکام کی تعلیم دو۔([11]) اسی طرح وفدِ عبد القیس کو ادائے خمس، نماز، روزہ اور زکوٰۃ وغیر ہ کی تعلیمات دیں پھر فرمایا: ان باتوں کو یاد کرلو اور دوسروں کو بھی بتا ؤ۔([12])
طویل کورس:قبیلۂ بنو تمیم کے ستر یا اسی افرادنے وفد کی صورت میں اسلام قبول کیا اور مدینہ شریف میں ایک مدت تک دینِ اسلام سیکھتے اور قراٰن مجید کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔([13]) بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments