دیہات والوں کے سوالات اور رسولُ اللہ کے جوابات(قسط:05)

علم کی چابی

دیہات والوں کے سوالات اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جوابات(قسط :5)

*مولانا محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2024ء

 ہمارے پیارے نبی،مکی مدنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرب شریف کے گاؤں دیہات میں رہنے والے صحابۂ کرامعلیہمُ الرّضوان جو سوالات کیا کرتے تھے،ان میں سے 15 سوالات اور ان کے جوابات چار قسطوں میں بیان کئے جا چکے، یہاں مزید4 سوالات اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جوابات ذکر کئے گئے ہیں:

کیا جنتیوں کا لباس بُنا جائے گا؟حضرت حنان بن خارجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار فرمایا: اَلَا اُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعَتْهُ اُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي یعنی کیا میں تمہیں ایسی حدیث نہ سناؤں جسے میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے اسے محفوظ کیا، لَمْ اَنْسَهُ بَعْد (اسے سننے کے بعد) میں اسے نہیں بھولا؟ میں ایک مرتبہ عبیداللہ بن حَیدَہ کے ساتھ مُلکِ شام کے راستے پر نکلا۔ہم حضرت عبداللہ بن عَمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے ایک حدیث سنائی،اور کہا: تم دونوں کی قوم سے ایک سخت طبیعت دیہاتی آیا اور کہنے لگا: يَا رَسُولَ اللَّهِ اَيْنَ الْهِجْرَةُ یا رسولَ اللہ! ہجرت کس طرف کی جائے؟ اِلَيْكَ حَيْثُمَا كُنْتَ جہاں آپ ہوں؟ یا کسی معین زمین کی طرف یاکسی خاص قوم کی جانب، (یہ بتائیے) جب آپ وصال فرما جائیں تو ہجرت ختم ہو جائے گی؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا: اَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْهِجْرَةِ ہجرت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! میں یہاں ہوں۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِذَا اَقَمْتَ الصَّلَاةَ وَآتَيْتَ الزَّكَاةَ فَاَنْتَ مُهَاجِرٌ وَاِنْ مُتَّ بِالْحَضْرَمَةِ یعنی جب تم نماز کی پابندی کرو اور زکوٰۃ ادا کرو تو تم مہاجرہو چاہے تمہاری موت (یمامہ کے علاقے) حضرمہ میں ہی کیو ں نہ آئے۔ایک روایت میں یہ بھی ہے:اَنْ تَهْجُرَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ یعنی ہجرت یہ ہے کہ تم ظاہر اور چھپی ہر بے حیائی سے دُور رہو۔ پھر ایک آدمی کھڑا ہوا ا ور بولا :یا رسولَ اللہ! یہ بتائیے کہ جنتیوں کے لباس بُنے جائیں گے یا جنت کے پھل چیر کر نکالے جائیں گے؟ لوگوں کو اس کے سوال پر تعجب ہوا، کچھ لوگ اس پر ہنس پڑے تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مِمَّ تَضْحَكُونَ؟ مِنْ جَاهِلٍ يَسْاَلُ عَالِمًا؟ تم کیو ں ہنس رہے ہو؟ اس پر کہ ایک نہ جاننے والے نےجاننےوالے سے سوال کیاہے؟ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنتیوں کے لباس کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہاکہ میں (یہاں ہوں)۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَا بَلْ تُشَقَّقُ عَنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ (بُنے نہیں جائیں گے) بلکہ وہ جنت کے پھلوں میں سے نکلیں گے۔ یہ بات آپ نے تین بار ارشاد فرمائی۔([1])

کیا عمرہ کرنا واجب ہے؟حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ایک دیہات کا رہنے والا آدمی آیا اور سوال کیا: يَا رَسُولَ الله اَخْبِرْنِي عَنِ الْعُمْرَةِ اَوَاجِبَةٌ هِيَ؟ یعنی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! مجھے عمرہ کے بارے میں بتائیے کہ کیا یہ واجب ہے؟ نبیِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَا یعنی واجب نہیں وَاَنْ تَعْتَمِرَ خَيْرٌ لَكَ یعنی اگر تو عمرہ کرے تو تیرے لئے بھلائی ہے۔([2])

میرے لئے کیا ہے؟ حضرت مصعب بن سعد رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں:کہ دیہات کا رہنے والا ایک آدمی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کی: يَا نَبِيَّ اللهِ! عَلِّمْنِي كَلامًا اَقُولُهُ یعنی اے اللہ کے نبی! مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یوں کہا کرو: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيكَ لَهٗ اللهُ اَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ اِلَّا بِاللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ یعنی اللہ کےسِوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب سے پاک ہے جو سارے جہان والوں کا مالک ہے، نیکی کرنے کی توفیق اور گناہ سے بچنے کی قوت اللہ ہی کی طر ف سے ہے۔ جو غالب حکمت والا ہے۔ اُس دیہات والے آدمی نے سوال کیا: هٰؤُلاءِ لِرَبِّي عَزَّوَجَلَّ فَمَا لِي؟ یعنی ان تمام کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لئے کیا ہے؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم یوں کہہ لیا کرو اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي یعنی اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے رزق عطا فرما۔([3])

سب سے بہترین آدمی کون ہے؟ حضرت عبداللہ بن بُسر رضی اللہُ عنہ بیان فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں دیہات کے رہنے والے دو آدمی حاضر ہوئے،ان میں سے ایک نے عرض کی: يَا رَسُولَ اللَّهِ! اَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں بہتر کون ہے؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَنْ طَالَ عُمْرُهٗ وَحَسُنَ عَمَلُهٗ یعنی جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو۔دوسرے اَعرابی نے عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! اِنَّ شَرَائِعَ الْاِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَمُرْنِي بِاَمْرٍ اَتَثَبَّتُ بِهٖ یعنی اسلام کے احکام بہت زیادہ ہیں،مجھے کوئی ایسا حکم دیجئے کہ جسے میں مضبوطی سے تھام لوں، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا من ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ یعنی تمہاری زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہے۔([4]) ایک اور روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا:اَيُّ النَّاسِ شَرٌّ یعنی لوگوں میں سب سے برا کون ہے؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَنْ طَالَ عُمْرُهٗ وَسَاءَ عَمَلُهٗ یعنی سب سے بُرا وہ ہے کہ جس کی عمر لمبی اور عمل برا ہو۔([5])

شرح:حضرت علّامہ محمد بن عَلَّان شَافَعِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اپنی لمبی عمر میں انسان وہ کام کرے جو اُسے اللہ کریم کے قریب کر نے والے اور اس کی رِضا تک پہنچا نے والے ہوں اور عمل کے اچھا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کو تمام شرائط و اَرکان کے ساتھ مکمل طور پر ادا کرے۔([6])

حضرت امام شرفُ الدین طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لوگوں میں بہترین آدمی وہ ہے جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو کیونکہ انسان کی مثال اِس دنیا میں نیک اَعمال کے ساتھ اُس تاجر کی سی ہے جو سامانِ تجارت کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تاکہ تجارت کر کے منافع کمائے اور اپنے وطن سلامتی کے ساتھ اور خوب نفع کماکر لوٹے تو وہ بھلائی کو پالیتا ہے۔ اسی طرح انسان کی عمر اس کا سرمایہ ہے، اس کی سانسیں اور اَعضاء و جَوارِح کا کام کرنا اس کا نقد ہے اور نیک اعمال اس کا منافع ہیں، پس جتنا اس کا سرمایہ یعنی عمر زیادہ ہوگی، نفع یعنی نیک اَعمال بھی اتنے زیادہ ہوں گے اور آخرت اس کا وطن ہے۔ پس جب وہ اپنے وطن لوٹے گا تو اپنے منافع یعنی نیک اعمال کا پورا پورا ثواب پائے گا۔([7])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])مسند احمد، 11/489،حدیث:6890- 11/665،حدیث:7095

([2])مسند احمد،22/290، حدیث:14396

([3])مسند احمد، 3/162، حدیث:1611

([4])مسند احمد،29/240، حدیث:17698

([5])ترمذی، 4/148،حدیث:2337

([6])دلیل الفالحین، 1/326، تحت الحدیث: 108

([7])شرح الطیبی،4/406،تحت الحدیث:2270۔


Share