
العلم نور
تخصص کی اہمیت
*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء
علوم وفنون انسانی ترقی وعروج میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ علوم وفنون سے آگہی بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان پر کائنات کے راز کھلتے چلے جاتے ہیں۔علم کی عظیم فضیلت کے سبب رب قدیر نے عالِمِ مَاکانَ وَمایَکُوْن حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی علم میں اضافے کی دعا کا حکم دیا۔ حدیث پاک ”اِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّم“([1])کے مطابق علم سیکھنے سے آتا ہے اور جتنا کسی علم وفن کو خصوصیت کے ساتھ سیکھا اور سمجھا جائے اتنا اُس میں دَرْک و مہارت پیدا ہوجاتی ہے، علمی دنیا میں اسے کسی علم وفن میں ”تَخَصُّص“ (Specialization) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پیش نظر تحریر میں تخصص کی تعریف وتعارف، اہمیت وضرورت اور فوائد و ثمرات وغیرہ بیان کئے گئے ہیں اور اس تناظر میں دعوت اسلامی کے کارہائے نمایاں کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
تخصص کی لغوی واصطلاحی تعریفات:
تخصص کا لغوی معنیٰ ہے خصوصیت، خاص کرنے یا ہونے کا عمل اور مختص وغیرہ جبکہ اصطلاح میں”کسی خاص مضمون یا علم و فن میں توجہ مرکوز کرنے اور ماہر بننے کے عمل کو تخصص کہتے ہیں،انگریزی میں اسے یوں تعبیر کیا جاتا ہے:
The process of concentrating on and becoming expert in a particular subject or skill.
تخصص کی اہمیت وضرورت:
اسلامی علوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتے ہیں، پہلے لوگ بڑے باہمت اور بلند حوصلوں کے مالک ہوا کرتے تھے، حافظے لاجواب اور صحتیں قابلِ رشک ہوا کرتی تھیں تو اُس دور مسعود میں بیک وقت کئی کئی علوم پر مہارتِ تامہ رکھنے والے کثیر علمائے کرام ہوا کرتے تھے مگر اب ہمتیں پست اور صلاحیتیں کمزوری کا شکار ہوگئیں تو دورِ حاضر کے تقاضوں کے پیشِ نظر علوم وفنون میں تخصص کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے، لہٰذا اب درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد شائقینِ علم کسی ایک فن میں تخصص (Specialization) کرتے ہیں جیسے علم تفسیر میں مہارت کے لئے تَخَصُّص فِی التَفْسِیْر، علوم حدیث میں کمال کے لئے تَخَصُّص فِی الْحَدِیْث، علوم شرعیہ و فتویٰ نویسی میں مضبوطی کے لئے تَخَصُّص فی الْفِقْہ ، درسِ نظامی کی تدریس میں مہارت کے لئے تَخَصُّص فِی الْفُنُوْن، کیا جاتا ہے۔ یہ تخصص دینی علوم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں عصری علوم میں بھی اسپیشلائزیشن کروارہی ہیں، آج جنرل فزیشن سے آگے بڑھتے ہوئے ڈاکٹر بھی اسپیشلسٹ بن رہے ہیں۔
زمانۂ نبوی میں تخصص کی جھلک:
تخصص کی جھلک ہمیں زمانۂ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بھی نظر آتی ہے جیسا کہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَاَفْرَضُھُمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَاَقْرَؤُھُمْ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ
یعنی میرے صحابہ میں حلال وحرام کو معاذ بن جبل زیادہ جانتے ہیں، فرائض (تقسیمِ وراثت) کے بڑے عالم زید بن ثابت ہیں اور قراٰنِ پاک کی قراءت کو سب سے زیادہ ابی بن کعب جانتے ہیں۔ ([2])
محدثِ کبیر علامہ محمد بن عبدالہادی حنفی سندھی رحمۃُ اللہِ علیہ اس کے تحت فرماتے ہیں:
هٰذَا الْحَدِيثُ صَرِيْحٌ فِيْ تَعَدُّدِ جِهَاتِ الْخَيْرِ فِي الصَّحَابَةِ وَاخْتِصَاصِ بَعْضِهَا بِبَعْضٍ
ترجمہ: یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم میں خیر و بھلائی کی مختلف جہتیں پائی جاتی تھیں اور بعض جہتیں بعض صحابۂ کرام کے ساتھ خاص تھیں۔([3])
علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ امام ماوردِی، رحمۃُ اللہِ علیہ سے نقل فرماتے ہیں: قَالَہٗ حَثًّا لِلصَّحْبِ عَلٰى مُنَافَسَتِهٖ وَالرَّغْبَةِ فِيْ تَعْلِيْمِهٖ یعنی حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ اس لئے فرمایا تاکہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم بھی بڑھ چڑھ کر یہ علم حاصل کریں اور اِسے سکھانے میں رغبت کریں۔([4])
ہرفن مولیٰ اور مُتَخَصِّص میں فرق:
دورِ حاضر کی نفسانفسی، تیزی، وقت کی کمی اور دیگر عوامل کے پیشِ نظر اب ”ہرفن مولیٰ“ بننا ہرکسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ اب جو ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہر علم وفن میں مہارت حاصل کرلے تو کسی بھی علم میں رسوخ وپختگی حاصل نہیں کرپاتا۔اہلِ علم ایسے شخص کی مثال اُس انسان سے دیتے ہیں جو بہت تیزی سے سفر کرتا ہے اور اُس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔اردو میں کہتے ہیں: ہر فن مولی ہر گُن ادھورا۔جیسے انگریزی میں بولا جاتا ہے: Jack of all trades master of none۔ لہٰذا ڈگری حاصل کرنے کے بعد جس علم وفن کی طرف طبیعت کا میلان اور قلب کا رجحان ہو اُ س میں مقدور بھر مزید محنت وکوشش کرکے تخصص کرلے، اِسی کا زیادہ فائدہ ہے۔ حافظ ابن عبدالبَر رحمۃُ اللہِ علیہ امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں:
”مَانَاظَرَنِیْ رَجُلٌ قَطُّ وَکَانَ مُفَنِّنًا فِی الْعُلُوْمِ اِلَّا غَلَبْتُہُ، وَلَانَاظَرَنِیْ رَجُلٌ ذُوْفَنٍّ وَاحِدٍ مِّنَ الْعُلُوْمِ اِلَّا غَلَبَنِیْ فِیْہِ
یعنی میں نے جب بھی کئی علوم کے ماہر شخص سے مناظرہ کیا تو میں اُس پر غالب رہا اور جب میں نے کسی ایسے شخص سے مناظرہ کیا جو کسی ایک فن کا ماہر تھا تو وہ اُس میں مجھ پر غالب آگیا۔ ([5])
موجودہ حالات کے تناظر میں تجربہ شاہد ہے کہ فہم وذکاوت،طبعی قوت،حضور قلبی اور کامل یکسوئی سے بندہ زیادہ سے زیادہ دو تین علوم میں ہی مہارت حاصل کرپاتا ہے۔
تخصص کے فوائد وثمرات:
کسی علم وفن میں تخصص کرنے والا عام فضلائے زمانہ اور اہل علم پر کئی لحاظ سے فوقیت رکھتا ہے، تخصص کے فوائد و ثمرات اُسے دوسروں سے ممتاز بناتے ہیں، اگر سچی لگن اور انتہائی محنت سے تخصص کرلیا جائے تو پھر متخصص متعلقہ علم و فن کی باریکیوں سے آگاہی،علمی گہرائی وگیرائی، نظریات کی مضبوطی، مسائلِ کثیرہ پر نظر، غلطیوں کے ازالے، کثرت مطالعہ، استدلال کی قوت و طریقے، استنباط واخذ کی صلاحیت، تقریر وتحریر میں احتیاط وانضباط، مسائل کی پیچیدگیوں کے درست اندازے اور حل،ماہر اساتذہ کی صحبت اور ان کے تجربات سے حصول فائدہ، مشاہدہ وتجربہ میں اضافے جیسی خوبیوں سے مزین وآراستہ ہوجاتا ہے اور قابل ِاعتماد واستناد بن جاتا ہے، پھر اُس علم وفن میں طلبہ وعلما حتی کہ محققین اُس سے رجوع کرتے ہیں، بسااوقات وہ اُس علم وفن میں استعارہ ہوجاتا ہے۔ مفتی حجاز امام احمد بن محمد مکی شافعی المعروف ابن حجر ہیتمی رحمۃُ اللہِ علیہ امام ابن جزری رحمۃُ اللہِ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مَنْ غَلَبَ عَلَيْهِ فَنٌّ يُرْجَعُ اِلَيْهِ فِيْهِ دُوْنَ غَيْرِهِ
یعنی جس عالم پر کسی فن کا غلبہ ہو تو اُس کی طرف اُسی فن میں رجوع کیا جاتا ہے، دیگر میں نہیں۔([6])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments