تذکرۂ صالحات
حضرت زینب بِنتِ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
*مولانا محمد حسان ہاشم عطاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022
اللہ پاک نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو چار بیٹیوں سے نوازا تھا۔ ان میں سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب بنتِ سیدہ خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہما ہیں۔[1]
ولادت : پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی لختِ جگر حضرت زینب رضی اللہ عنہا اعلانِ نبوت سے دس سال قبل پید ا ہوئیں جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عمرشریف اس وقت 30 برس تھی۔[2]
نکاح : حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ کی والدہ کی زندگی میں ابوالعاص بن ربیع سے ہوا جو کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حقیقی بہن حضرت ہالہ بنتِ خُوَیلد کے بیٹے تھے اور 7ہجری کو اسلام قبول کرکے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جانثار صحابۂ کرام میں شامل ہوگئے تھے ۔[3]
اولاد : اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہا کو ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا تھا ، بیٹے کا نام علی بن ابو العاص جبکہ بیٹی کا نام اُمامہ بنت ابو العاص تھا ، رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان دونوں پر خصوصی شفقت فرماتے تھے ، چنانچہ حافظ ابو نُعَیم لکھتے ہیں : حضرت علی بن ابو العاص کوفتحِ مکہ کے موقع پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا یہ بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی وفات پاگئے۔ نیز رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُمامہ بنتِ ابو العاص کو كندھے پر اٹھائے نماز پڑھتے ، جب سجدے میں جاتے تو انہیں اُتاردیتے اور جب سجدے سے اٹھنے لگتے تو انہیں واپس اٹھالیتے۔[4]
نا خوشگوار واقعہ : رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مدینۂ پاک ہجرت کرنے کے بعد بی بی زینب رضی اللہ عنہا کو لینے کے لئے دو صحابۂ کرام کومکہ شریف بھیجا جن میں سے ایک حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے دیور کِنانہ آپ کو لے کر مکے سے روانہ ہوئے ، کفار کو جب اس کی خبر ہوئی تو ایک جماعت مزاحمت کے لئے پہنچ گئی۔ انہوں نے حضرت زینب کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا جس سے ان کا حمل ضائع ہوگیا ، یہ دیکھ کر کنانہ نے تَرکَش سے تیر نکال کر سامنے رکھ دیئے اور کہا ” کوئی بھی سامنے آیا تو وہ ان سے بچ کر نہیں جا سکے گا ! “ لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ” ٹھہرو ہماری بات سن لو ! محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی بیٹی کو دن دہاڑے لے کر جاؤگے تو یہ ہماری کمزوری کی دلیل ہوگی ، ویسے بھی ان کی بیٹی کو روکنے کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ، لہٰذا ابھی تم انہیں واپس لے جاؤ جب شور شرابا کم ہوجائے تو رات کو انہیں چوری چھپے لے جانا “ کنانہ نے اس تجویز کو قبول کر لیا اور انہیں واپس لے گئے ، چند روز بعد ایک رات کو انہیں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کے پاس پہنچا دیا اور وہ انہیں نہایت ادب و عزت کے ساتھ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس مدینے لے آئے۔[5]
وفات : حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے 8ہجری میں انتقال فرمایا۔ [6]
پیارے آقا کی محبت : حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کی قبر میں اترے تو آپ مغموم و پریشان تھے پھر جب باہر تشریف لائے تو پریشانی اور غم کے آثار زائل ہو چکے تھے ، فرمایا : مجھے زینب کی کمزوری یادآگئی تو میں نے اللہ ربُّ العزت کی بارگاہ میں اس کی قبر کی تنگی اور غم میں تخفیف کا سوال کیا ، تو اللہ پاک نے ایسا ہی کیا اور اسے اس پر آسان فرما دیا۔ [7]
غور تو کیجئے ! بی بی زینب رضی اللہ عنہا کو اللہ کی راہ میں کس قدر ستایا گیا او ران کے دکھ کے ذریعے ان کے والدِ ماجد حضور سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رنج پہنچایا گیا۔ ایک بیٹی کا دکھ والدین کو کس قدر ہوتا ہے یہ بیٹیوں کے والدین بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن ان مصائب اور تکلیفوں کے باوجود نہ تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کوئی کمی کی اور نہ ہی آپ کی شہزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کوئی کمزوری دکھائی کہ جس سے والدِ گرامی کو رنج ہو۔
ہمیں بھی چاہئے کہ دینی معاملات میں اپنے والدین کا ساتھ دیں اور والدین کو چاہئے کہ دین کے معاملے میں اولاد کو اپنی کمزوری نہ بننے دیں بلکہ ہر حال میں دینِ اسلام جو کہ ہماری نجات و کامیابی کا واحد او رمضبوط ذریعہ ہے اسے ترجیح دیں۔
اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، شعبہ ماہنامہ خواتین ، کراچی
[1] الطبقات الکبریٰ ، 8 / 25
[2] شرح الزرقانی علی المواہب ، 4 / 318
[3] سیر اعلام النبلاء ، 3 / 501 ، معرفۃ الصحابۃ ، 5 / 139
[4] معرفۃ الصحابۃ ، 5 / 140 ، بخاری ، 1 / 192 ، حدیث : 516
[5] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، ص 271
[6] الطبقات الکبری ، 8 / 28
[7] معرفۃ الصحابۃ ، 5 / 140
Comments