جس نے بھی مدد کو پُکارا یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اسلامی عقائد و معلومات

جس نے بھی مدد کو پُکارا یارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

*مولانا عدنان چشتی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2022

اللہ کریم بےشمار صفات و کمالات کا جامع ہے اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ تمام مخلوق کا فریاد رَس ، ان کی ضروریات اور سوالات کو پورا فرمانے والا ہے۔دکھ درد اور پریشانیوں کی ماری مخلوق اسے پکارتی اور اپنی مَن مانی مرادیں پاتی ہے۔

اللہ ربُّ العزّت نے مخلوق میں سے اپنے پسندیدہ اور برگزیدہ بندوں کو بھی یہ اختیارات عطا فرمائے ہیں کہ وہ مخلوق کے کام آتے ، اللہ کی عطا سے ان کی فریادیں سنتے اور پوری کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ ہم اہلِ اسلام کا عقیدہ و ایمان ہے کہ حقیقی طور پر مدد کرنے والا صرف اللہ کریم ہی ہے ، باقی سب اس کی عطا اور کرم ہی سے مدد کرتے ہیں اور یہ قراٰن و حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ کریم کا فرمان ہے : (فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ ( ۴ )  ) ترجَمۂ کنز الایمان : تو بے شک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔  ( پ28 ، التحريم :4) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسی طرح حدیث شریف میں ہے : حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے يا مدد کی ضرورت ہو لیکن ایسی جگہ ہو کہ جہاں کوئی مددگار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ یوں پکارے : ” يَاعِبَادَاللهِ اَغِيثُونِي ، يَا عِبَادَ اللهِ اَغِيثُونِي ، فَاِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ “ اے اللہ کے بندو !  میری مدد کرو ، اے اللہ کے بندو !  میری مدد کرو ، کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھتے۔ راوی فرماتے ہیں کہ ” وَقَدْ جُرِّبَ ذٰلِكَ “ یہ تجربہ شدہ ہے۔  [1]

اللہ کریم نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنی بہت سی صفات کا مظہر بنایا ہے۔احادیثِ پاک اور سیرتِ طیبہ پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات دن میں چمکنے والے سورج کی طرح صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ ربِّ کریم کی عطا سے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی مخلوق کے حاجت رَوا اور مشکل کُشا ہیں۔ اس صفتِ حاجت رَوائی سے جن و انس ، صغیرو کبیر ، چرند پرند ، خوابیدہ و بیدار سبھی برکتیں پا رہے ہیں۔

 نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حاجت رَوائی ، مشکل کشائی اور اِمداد فرمانے کا سلسلہ بہت وسیع و کشادہ ہے اس موضوع پر جلیلُ القدر امام حضرت علامہ ابوعبدُاللہ محمد بن موسیٰ مالکی مَراکَشی  ( وفات : 682ھ )  نے پوری کتاب تصنیف فرمائی ہے جس سے کئی عُلما و محدثین نے استفادہ کیا ہے انہی کی ایک عبارت سے اس عنوان کی وسعت کو سمجھا جا سکتاہے جیسا کہ لکھتے ہیں : وَلَو تُتُبِّعَت ھٰذَا الْفَنُّ لَحَفِیَتِ الْاَقْلَامُ وَ جَفّتِ الْمَحابِر ُ وَ فَنَیَتِ الطُرَوسُ فِی تَتَبُّعِہٖ وَ الدَّفاترُ یعنی اگر اس طرح کے واقعات کو جمع کیا جائے تو ان کا احاطہ کرنے میں قلم گھِس جائیں ، دواتیں خشک ہو جائیں اور کاپیاں اور رجسٹر ختم ہو جائیں گے۔  [2]

یہاں ذکر کردہ چند واقعات سے اپنے ایمان کو تازہ کیجئے !  چنانچہ

معذوری جاتی رہی : غَرناطہ کا ایک آدمی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا کہ حکیموں طبیبوں کے پاس جس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ حضرت ابوعبدُ اللہ رحمۃُ اللہ علیہ نے اس آدمی کی تندرستی کے لئے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک درخواست زائرینِ طیبہ کے ہاتھوں لکھ بھیجی جس کا کچھ مضمون یوں تھا : یہ طویل عرصے سے سخت بیماری میں مبتلا کی درخواست ہے جو اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ اطہر کے وسیلے سے شفا کا طالب ہے ، اس کے قدموں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، وہ صرف ہاتھ سے اشارہ کر سکتا ہے ، یاخاتمُ الرُّسل ، اے شفاعت فرمانے والے ، یہ ایک ایسے بیمار کی درخواست ہے کہ جس کا دل رو رہا ہے اور نگاہیں شرم کی وجہ سے جھکی ہوئی ہیں ، آپ کی ظاہری حیات اور اس کے بعد بھی ہم آپ سے پُرامید ہیں کہ آپ یقینی خطروں کو بھی دور فرما دیں گے۔

جونہی وہ قافلہ روضۂ اطہر پر حاضرہوااور درخواست میں لکھے اشعار پڑھے گئے تو وہ بیمار بالکل درست و توانا ہو گیا۔جس آدمی کو درخواست دی گئی تھی جب وہ واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ مریض ایسا تندرست ہو چکا ہے جیسے کبھی بیمار ہی نہیں ہوا تھا۔   [3]

مجھے ڈوبنے نہ دیا : حضرت امام ابوعبدُ اللہ محمد بن علی خَزْرَجی رحمۃُ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مقامِ جَرجَر میں تھا۔ سفر کے لئے میں نے سمندری راستہ اختیار کیا ، سمندر میں اچانک ایک ایسا خطرناک طوفا ن آیا جس کے سبب میں ڈوبنے ہی والا تھا کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مدد کے لئے پکارا ، اچانک غیب سے ایک لکڑی دکھائی دی جس کے ذریعے میں کنارے تک پہنچا ۔

آگے فرماتے ہیں : نَجَانِیَ اللہ باِسْتِغَاثَتِی باِلنَّبِیِّ یعنی اللہ پاک نے مجھے اپنے محبوب سے استغاثہ کرنے کے سبب نجات دی ۔   [4]

چور ڈاکو سے حفاظت فرمائی : حضرت شیخ ابو عبدُ اللہ حسین رحمۃُ اللہ علیہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں : میں ” شام “ کے شہر حِمْص میں مقیم تھا ، میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں سر زمینِ مصر کی زیارت کروں لیکن چونکہ مصر کے راستوں میں ڈاکوؤں اور کافروں کا خوف تھا تو میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ، یوں ایک سال تک سفر ملتوی رہا۔ ایک بار میں سو رہا تھا کہ میری قسمت جاگ اٹھی ، میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی ، عرض کی : یا رسولَ اللہ !  ( میں مصر جانا چاہتا ہوں جبکہ راستے میں مجھے ڈاکوؤں اور کافروں کا ڈر ہے ) مجھے آپ کا تحفظ درکار ہے ، فرمایا : تمہیں کس چیز کا ڈر ہے ؟ میں نے دوبارہ اپنا ارادہ ظاہر کر کے کہا کہ مجھے آپ کا تحفظ چاہئے ، پھر فرمایا : تمہیں کس چیز کا ڈر ہے؟ میں نے تیسری بار کہا کہ میرے دشمن بہت زیادہ ہیں ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر فرمایا : تمہیں کس چیز کا خوف ہے؟  ( گویا آپ فرما رہے ہوں کہ میں تمہارا فریاد رس ہوں پھر تمہیں کس چیز کا ڈرہے )  اتنےمیں میری آنکھ کھل گئی۔ پھر میں نےحمص سے مصر تک کا سفر اس حال میں کیا کہ میرے دل میں خوف کے بجائے اب صرف سکون ہی سکون تھا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوشی خوشی اپنےمقام تک پہنچ گیا ۔  [5]

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جانتے ہیں : حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : آج حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دروازےپر ہر شخص اپنی بولی میں حُضور سے فریادیں کرتا ہے ، کوئی ترجمہ کرنے والا درمیان میں نہیں ہوتا ، سب کی سُنتے سمجھتے ہیں ، سب کی فریادْ رَسِی کرتے ہیں ، یہ ہے حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب زبانیں جاننے کا ثُبُوت۔  [6]

چونکہ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صِرْف انسانوں ہی کے نبی نہیں بلکہ تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لئے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مشکل کُشائی کایہ فیضان صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ مصیبت میں مبتلا جانوروں ، پرندوں حتّٰی کہ بے جان چیزوں کی بھی فریادیں سنتے ، بولیاں سمجھتے اور اُن کی امداد بھی فرماتے ہیں جیسا کہ حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود تو عَرَبی بولتے تھے مگر ساری زبانیں سمجھتے تھے ، حتّٰی کہ جانوروں کی بولیاں بھی سمجھ لیتے تھے ، اِس لئے اُونٹوں ، چِڑیوں نے حُضورِ انور ، شاہِ بحرو بَر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آستانے پر فریادیں کیں اور عطائیں پائیں۔  [7]مزید فرماتے ہیں : حضرت سلیمان علیہ السّلام صرف چِڑیوں ، چیونٹیوں کی بولی سمجھتے تھے ، حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شجر و حَجر ، خُشک و تَر ساری مخلوق کی بولی جانتے ہیں ، حُضور حاجت رَوا ، مشکل کُشا ہیں۔یہ وہ مسئلہ ہے جسے جانور بھی مانتے ہیں۔  [8]

پریشان حال اونٹو ں ، ہرنیوں اور چڑیوں کی داد رسی کے کئی واقعات محدثینِ کرام نے اپنی کتابوں میں ذکر فرمائے ہیں۔

ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد

اِسی دَر پر شُتُرانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں

بیماری دور فرمائی : شارحِ بخاری حضرت امام احمدبن محمد قسطلانی رحمۃُ اللہ علیہ  ( وفات : 923ھ )  اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں : ایک دفعہ مجھے ایسی بیماری لگی جس کے علاج سے تمام ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ میں کئی سال تک اس مہلک بیماری میں مبتلا رہا۔ ایک بار میں مکّہ شریف حاضر ہوا اور بارگاہِ رسالت میں شفا یاب ہونے کے لئے استغاثہ پیش کیا ، اس دوران میری آنکھ لگ گئی ، خواب میں ایک شخص آیا جس کے پاس کاغذ تھا ، اس میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی : ھَذَا دَوَاءُ دَاءِ اَحْمَدَ بْنِ القَسْطَلَّانِی مِنَ الْحَضرَۃِ الشَّرِیْفَۃِ بَعْدَ الْاِذْنِ الْشَّریفِ یعنی یہ دوا بارگاہِ رسالت سے احمد بن قسطلانی کی بیماری کے لئے ہے اذن کے بعد۔ جب میں بیدار ہوا تو مجھے کوئی بیماری نہیں تھی ، اللہ کی قسم میرا مرض ختم ہو چکا تھا۔ آپ فرماتے ہیں : وَحَصَلَ الشِّفَاءُ بِبَرَکَۃِ النَّبِی صلَّی اللہ علیہِ وسَلّم یعنی مجھے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی برکت سے شِفا مل گئی۔  [9]

جنات سے نجات دلائی : حضرت امام قسطلانی رحمۃُ اللہ علیہ تحدیثِ نعمت کے لئے اپنا ایک اور واقعہ ذکر کرتے ہیں : میں 885ھ میں زیارتِ مقدسہ کے بعد مکہ کے راستے مصر کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں میری خادمہ کو آسیب نے آلیا ۔ وہ کئی دن اس بیماری میں مبتلا رہی۔ پھر میں نے اس کی شفا کے لئے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں فریاد کی جس کےبعد میں نے ایک خواب دیکھا ، ایک شخص آیا جس کے ساتھ وہ جنّ بھی تھا جس نے میری خادمہ کو زیرِ اثر کیا تھا۔ اس شخص نے کہا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس جنّ کو تمہارے پاس بھیجا ہے ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے ناراض ہیں اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ اب دوبارہ ادھر نہیں آئے گا۔ جب میں بیدار ہو ا تو اپنی خادمہ کو بالکل پُر سکون پایا۔ اب وہ مکمل صحت یاب ہو چکی تھی ۔  [10]

اس طرح کے مزید واقعات پڑھ کر ایمان کو تازہ کرنے کےلئے امام محمد بن موسیٰ مَراکَشی کی کتاب ” مِصْباحُ الظُّلَام “ حضرت علا مہ یوسف بن اسماعیل نَبہانی رحمۃُ اللہ علیہ کی کتاب ” شَوَاہِدُ الْحقّ “ اور ” حُجّۃُ اللہ عَلیٰ الْعَالَمِین “ کا مطالعہ بےحد مفید ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*رکن مجلس اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] معجم کبیر ، 17/117 ، حدیث : 290

[2] مصباح الظلام ، ص102

[3] مصبا ح الظلام ، ص154 مختصراً

[4] حجۃُ اللہ علی العالمین ، ص565

[5] حجۃُ اللہ علی العالمین ، ص565

[6] مراٰۃ المناجیح ، 8/38

[7] مراٰۃ المناجیح ، 8/119

[8] مراٰۃ المناجیح ، 8/239

[9] حجۃُ اللہ علی العالمین ، ص560

[10] حجۃُ اللہ علی العالمین ، ص560


Share

Articles

Comments


Security Code