سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ( قسط : 20 )
شفیعِ محشر کی آمدِ محشر کا منظر
*مولانا ابو الحسن عطّاری مدنی
گذشتہ سے پیوستہ
( 30 ) اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي ترجمہ : میں ہی حاشر ( جمع کرنےوالا ) ہوں لوگ میرے ہی قدموں پہ جمع کئے جائیں گے۔[1]
( 31 ) اَنا اَوَّلُ النَّاسِ اِفَاقَةً ترجمہ : لوگوں میں سب سے پہلے میں ہی افاقہ پانے والا یعنی اٹھنے والا ہوں۔[2]
( 32 ) اَنَا اَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا اِذَا بُعِثُوا ترجمہ : قیامت کے دن لوگوں میں سب سے پہلے میں ہی اٹھایا جاؤں گا۔[3]
( 33 ) اَنَا اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْاَرْضُ وَلا فَخْرَ ترجمہ : قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ ہی سے زمین کھلے گی مگر فخر نہیں۔[4]
( 34 ) اَنَا اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْاَرْضُ فَاَکُوْنُ اَوّلَ مَنْ يُبْعَثُ ترجمہ : قیامت کےدن سب سے پہلے مجھ ہی سے زمین کھلے گی پس میں ہی سب سے پہلے اٹھنے والا ہوں۔[5]
مذکورہ پانچ روایات میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزارِ اقدس سے باہر آنے اور میدانِ محشر میں تشریف لانے کا ذکر ہے۔ شفیعِ محشر کی میدانِ محشر میں آمد کا انداز دیگر کئی روایات میں تفصیل کے ساتھ مروی ہے۔ مختلف روایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ دوسری مرتبہ صورپھونکے جانے کے بعد سب سے پہلے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیدار ہوں گے ، آپ صدیقِ اکبر اور فاروقِ اعظم کے درمیان ہوں گے ، پھر اہلِ بقیع اٹھیں گے ، پھر اہل مکہ اٹھیں گے ، پھر آپ براق پر سوارہو کر صدّیق و فاروق اور اہلِ حرمین کے درمیان سترہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں میدانِ محشر کی جانب تشریف لائیں گے ، اس سب کی تفصیل درج ذیل روایات میں بیان کی گئی ہے۔
70ہزارفرشتوں کے جھرمٹ میں : شعبُ الایمان میں ہے کہ ہر صبح طلوعِ فجر کے وقت 70ہزار فرشتے نازل ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبرِاطہر کو گھیر لیتے ہیں اور پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں اور شام تک درودِ پاک بھیجتے رہتے ہیں ، پھر شام کے وقت وہ آسمانوں کی جانب چڑھ جاتے ہیں اور ان ہی کی مثل مزید 70ہزار اترتے ہیں ، وہ بھی اسی کی مثل عمل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی قبرِمبارک سے باہر تشریف لائیں گے تو 70ہزارفرشتوں کے درمیان آئیں گے جو کہ آپ کی عزت و توقیر کے لئے حاضر ہوں گے۔[6]
بخاری شریف میں ہے کہ جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان میں سبھی بےہوش ہوجائیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے ، پھر دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں ہی اٹھایا جاؤں گا۔[7]
ہیں صدیق اِدھر ، فاروق اُدھر : ترمذی شریف میں ہے کہ ایک بار رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گھر سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں یوں داخل ہوئے کہ جنابِ ابوبکر صدیق اور عمر فاروقِ اعظم آپ کے دائیں بائیں تھے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ اس وقت آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ہم قیامت کے دن بھی اسی طرح اٹھائے جائیں گے۔[8]
اہلِ بقیع و مکّہ کے جھرمٹ میں : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد شیخین کریمین اور پھر اہلِ بقیع و مکہ کے اٹھائے جانے کا ذکر ترمذی شریف کی روایت میں کچھ یوں ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : سب سے پہلے مجھ ہی سے زمین کھلے گی ، پھر ابوبکر اور پھر عمر سے ، پھر میں اہل بقیع کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ جمع ہوں گے ، پھر میں اہلِ مکہ کا انتظار کروں گا ، یہاں تک کہ حرمین کے درمیان ان سے ملوں گا۔[9]
جبکہ مسندِ حارث کی روایت میں ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اہلِ بقیع کے اٹھنے کے بعد اہلِ مکّہ کا انتظار فرمائیں گے ، پھر جب وہ آجائیں گے تو ان کے ساتھ میدانِ حشر میں جائیں گے۔[10]
سرورِ کائنات کی میدانِ حشر میں آمد اور بلالِ حبشی کی اذان : جلیلُ القدر صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میدانِ محشر میں جمع ہونے کے انداز کو روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن انبیائے کرام علیہمُ السّلام کو ان کی قبروں سے میدانِ محشر میں سواریوں پر اکٹھا کیا جائے گا ، حضرت صالح علیہ السّلام کو ان کی اونٹنی پر لایا جائےگا اور میرے بیٹوں حسن وحسین کو میری اونٹنی عضباء پر لایا جائے گا اور مجھے براق پر لایا جائےگا جس کا قدم اس کی حدِّ نگاہ تک جائے گا ، اور بلال کو جنّت کی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی پر لایا جائے گا ، پس وہ خالص اذان دیں گے اور سچی سچی گواہی دیں گے حتی کہ جب وہ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللَّه کہیں گے : تو تمام مؤمنینِ اولین و آخرین ان کے ساتھ یہی گواہی دیں گے ، پس گواہی قبول کی جائےگی جس سے قبول کی جائے گی اور رد کی جائے گی جس سے رد کی جائے گی۔[11]
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے سوال پر حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس دن براق پر سوار ہوں گا اور انبیا کے درمیان یہ صرف میری خصوصیت ہوگی ، پھر آپ نے حضرت بلال کی جانب دیکھ کر فرمایا کہ یہ جنّتی اونٹنی پر سوار آئیں گے اور اس کی پیٹھ پر اذان دیں گے ، جب سابقہ امتیں اور ان کے انبیائے کرام اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا الله ، اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ الله سنیں گے تو بلال کی جانب دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہم بھی اس کی گواہی دیتے ہیں۔[12]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ
[1] بخاری ، 2 / 484 ، حدیث : 3532
[2] کشف الاستار ، 3 / 104 ، حدیث : 2351
[3] ترمذی ، 5 / 352 ، حدیث : 3630
[4] ترمذی ، 5 / 354 ، حدیث : 3635
[5] تاریخ ابن عساکر ، 59 / 275 ، رقم : 7525
[6] شعب الایمان ، 3 / 492 ، حدیث : 4170
[7] بخاری ، 2 / 446 ، حدیث : 3414
[8] ترمذی ، 5 / 378 ، حدیث : 3689
[9] ترمذی ، 5 / 388 ، حدیث : 3712
[10] بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث ، ص1000 ، حدیث : 1120
[11] معجم صغیر ، 2 / 126
[12] تاریخ ابن عساکر ، 10 / 459 ، رقم : 2655
Comments