Book Name:Fazail e Hasnain e Karimain

کے ساتھ علیحدگی میں مصروفِ گفتگو تھے اور آپ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ کے بیٹے حضرت عبدُ اللہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ دروازے پر کھڑے اِنتظار کر رہے تھے۔کچھ دیر انتظار کے بعد وہ واپس لوٹنے لگے تو ان کے ساتھ ہی میں بھی واپس لوٹ آیا۔بعد میں اَمِیْرُالْمُومنین حضرت عمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ سے میری مُلاقات ہوئی تو میں نے عرض کی:’’اے اَمِیْرُالْمُومنین! میں آپ کے پاس آیا تھا، مگر آپ حضرت اَمِیْرِ مُعاویہرَضِیَ اللہُ  عَنْہُ کے ساتھ مَصْروفِ گفتگو تھے۔آپ کے بیٹے عبدُ اللہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے ( میں نے سوچا جب بیٹے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے،مجھے کیسے ہوسکتی ہے؟)لہٰذا میں ان کے ساتھ ہی واپس چلا گیا۔‘‘تو اَمِیْرُالْمُومنین حضرت   فارُوْقِ اَعْظَم رَضِیَ اللہُ  عَنْہُنے فرمایا:اے میرے بیٹے حسین!میری اَوْلاد سے زِیادہ،آپ اس بات کے(زیادہ)حق دار ہیں کہ آپ اَندر آجائیں اور ہمارے سروں پر یہ جو بال ہیں،اللہ کریم کے بعد کس نے اُگائے ہیں، تم سادات ِکرام نے ہی تو اُگائے ہیں۔‘‘(تاریخِ ابن عساکر،ج ۱۴،ص۱۷۵)

شَیرِخدا کی امامِ حسن سے مَحَبَّت

حضرت اَصْبَغْ بن نُباتہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت امام حسن مُجْتَبیٰ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ بیمارہوئے تو اَمِیْرُالْمُومنین حضرت عَلیُّ الْمُرتَضٰی رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ  ان کی عِیادَت کے لئے تشریف لےگئے، ہم بھی اُن کے ساتھ عِیادَت کے لئے حاضِر ہُوئے۔اَمِیْرُالْمُومنین حضرت عَلیُّ الْمُرتَضٰی رَضِیَ اللہُ  عَنْہُنے خَیْرِیَّت دریافت کرتے ہوئے فرمایا:اے نواسۂ رسول! اب طَبِیعَت کیسی ہے؟عَرْض کی:اَلْحَمْدُ لِلّٰہ بہتر ہوں،آپرَضِیَ اللہُ  عَنْہُ