
سلسلہ: رسم ورواج
موضوع: رخصتی (قسط1)
*بنتِ منصور عطاریہ مدنیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ: شادی کی رسموں سے متعلق رسومات کے بیان کا سلسلہ جاری ہے:
رخصتی سے پہلے کی رسومات
دلہا دلہن کی انٹری: شادی ہال میں دلہا دلہن کے اکٹھے داخل ہونے کی ویڈیو اور تصاویر بنانا اب ایک رسم بن چکا ہے اور اس پر کثیر رقم بھی خرچ کی جاتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ تیز آواز میں گانوں کی دھن پر دلہا دلہن ہاتھ تھامے شادی ہال میں داخل ہوتے ہیں،Blower سے پھول اڑائے جاتے ہیں،بعض جگہوں پر مصنوعی برف باری کا سا ماحول بنایا جاتا ہے، ماحول کو مزید پرکشش بنانے کے لیے ڈسکو اور اسپاٹ لائٹس وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے،دلہا دلہن سب کے سامنے حیا سوز انداز میں تصاویر بنواتے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے معاذ اللہ فلم کی شوٹنگ چل رہی ہو، سب کی نگاہیں انہی پر جمی ہوتی ہیں، اگر کوئی کہیں مصروف بھی ہو تو اس دوران ہال کی مکمل لائٹس بند کر دی جاتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی سب کی نظر ادھر ہو جائے اور سب ہی ان گناہوں بھرے مناظر کو دیکھنے میں شریک ہوں۔الامان و الحفیظ!اس موقع پر دلہن جانے انجانے میں غیر محرموں کو بدنگاہی کی کھلے عام دعوتِ گناہ دیتی نظر آتی ہے، کیونکہ وہ اپنی شادی کی تصاویر اور ویڈیوز کو یادگار بنانے کے لئے غیر محرموں کے سامنے مختلف پوز بنوا کر ایسی حرکات بھی کرتی نظر آتی ہے جس کی شریعت بالکل اجازت نہیں دیتی۔یہ بھی یاد رہے کہ بلا اجازتِ شرعی تصویر بنانا بنوانا بالاتفاق حرام ہے، بکثرت احادیثِ مبارکہ سے اس کی حُرمت ثابت ہے،جبکہ ویڈیو کے بارے میں علما کے درمیان اختلاف ہے۔نا جائز کہنے والے علما اسے تصویر پر قیاس کرتے ہوئے نا جائز کہتے ہیں،علمائے محققین ویڈیو اور تصویر میں فرق کرتے ہیں،جبکہ دارُ الافتا اہلسنت کا فتویٰ اگرچہ ویڈیو کے جواز پر ہے، مگر خیال رہے کہ ویڈیو کے جائز ہونے کا حکم جائز پروگرامز کے بارے میں ہے جیسے علمائے اہلسنت کے بیانات،تلاوتِ قرآن اور نعت کی موویز وغیرہ اور ناجائز امور کی مووی جیسے شادی کے موقع پر بےپردہ عورتوں کی موویز یونہی فلموں، ڈراموں،گانوں،باجوں وغیرہ کی موویاں بنانا،بنوانا ناجائز و حرام ہیں۔ ([1])لہٰذا ان ناجائز اور خلافِ شرع کاموں سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔
Anti camera pouch کا استعمال:
موجودہ دور میں دیکھا جائے تو تقریباً ہر ایک کے پاس جدید فون میں بہترین کیمرا ضرور ہوتا ہے جس سے وہ ہر موقع کی تصاویر بناتا دکھائی دیتا ہے اور اس معاملے میں بسا اوقات کسی کی پرائیویسی کا بھی خیال نہیں رکھتا۔ تصویریں بے پردگی کا سبب ہی نہیں بنتیں، بلکہ ان کے غلط استعمال سے دیگر مسائل بھی ہو سکتے ہیں، مثلاً مشہور شخصیات کی سیکورٹی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں اور ویسے بھی بعض لوگ اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ ان کی تصاویر منظرِ عام پر آئیں،نیز پردے کا ذہن رکھنے والے بھی ایسے ماحول میں اپنی پرائیویسی برقرار نہیں رکھ پاتے،لہٰذا ان معاملات سے بچنے کے لیے بعض شادیوں میں دروازے پر ہی موبائل کے لیے ایک anti camera pouch یا بیگ دے دیا جاتا ہے، جس سے موبائل کی اسکرین کو تو استعمال کیا جا سکتا ہے مگر اس سے تصویر نہیں لی جا سکتی۔ اس میں موبائل ڈال کر دروازے پر ہی Seal کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک بہترین چیز ہے جو بے پردگی سے بچنے کے لیے مناسب ہے۔
ساس کا داماد کو سونے کی انگوٹھی پہنانا: کئی جگہوں پر یہ رسم بھی ہوتی ہے کہ جب دلہا اسٹیج پر آ جاتا ہے تو دلہن کی ماں اسے سونے کی انگوٹھی پہناتی ہے۔اس میں دو باتیں قابلِ غور ہیں: پہلی یہ کہ سونا پہننا مرد پر حرام ہے۔چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی انگوٹھیاںمرد کے لیے پہننا حرام ہے۔([2])لہٰذا سونے کی انگوٹھی کی اجازت نہیں،صرف چاندی کی بغیر نگینے والی انگوٹھی بھی نہ پہنائی جائے،البتہ! بطور تحفہ انگوٹھی دینے میں حرج نہیں۔دوسری بات دلہن کی والدہ کا اپنے داماد کو انگوٹھی پہنانا تو اس کے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ نکاح کے بعد دلہا دلہن کی والدہ کا محرم ہو چکا ہوتا ہے مگر احتیاط ہی بہتر ہے۔
سسر کا داماد کو گھڑی پہنانا: ایک رسم یہ بھی ہوتی ہے کہ دلہن کے والد دلہے کو گھڑی پہناتے ہیں، یہ بطور تحفہ ہوتی ہے اور تحفہ دینے میں کوئی حرج نہیں،بلکہ یہ محبت میں اضافے کا سبب ہے،مگر کچھ امیر لوگ اپنی مالداری کے اظہار کے لیے دلہے کو سونے یا چاندی کی گھڑی پہناتے ہیں۔ خیال رہے کہ سونے کی گھڑی کلائی پر باندھنا اور اس میں وقت دیکھنا دونوں ناجائز ہیں۔([3]) امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:سونے کی گھڑی یا چاندی کی گھڑی میں وقت دیکھنا مرد و عورت سب کو حرام ہے۔([4]) لہٰذا اس طرح کا تحفہ بھی نہ دیا جائے۔
سر ٹکرانے کی رسم: عام طور پر رخصتی سے پہلے سلامی کے لیے دلہا دلہن کو ساتھ بٹھایا جاتا ہے، مگر ایک مخصوص علاقے میں اس رسم کی ادائیگی کا طریقہ انتہائی عجیب ہے اور وہ یوں کہ دلہا دلہن کو ایک دوسرے کے سامنے بٹھایا جاتا ہے،ویسے دلہا دلہن اسٹیج پر رکھے صوفوں پر بیٹھتے ہیں،لیکن اس رسم کی ادائیگی کے لیے اسٹیج پر رلّی(رنگین کپڑے کے ٹکڑوں سے بنائی ہوئی مختلف نمونے کی چادر یا رضائی)بچھا کر ان کو اس پر بٹھاتے ہیں،اس کے بعد ان دونوں کے تمام رشتے دار اسٹیج پر آ کر دونوں کے سر کو تین تین بار ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بعد سلامی کی صورت میں انہیں پیسے دیتے جاتے ہیں، اس رسم میں چونکہ غیر مسلموں کی مشابہت پائی جاتی ہے، لہٰذا اس لیے اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔
دودھ پلائی: رخصتی سے پہلے کی ایک مشہور رسم دودھ پلائی بھی ہے جس میں دلہن کی بہنیں دلہے کو خوبصورت سے گلاس میں دودھ پلاتی ہیں جو اسپیشل میوہ جات سے بھرپور خوش ذائقہ ہوتا ہے،یہ گلاس خاص اس کام کے لئے الگ سے مہنگے داموں خریدے جاتے ہیں اور عموماً دودھ پلائی کی رسم کے بعد انہیں استعمال بھی نہیں کیا جاتا،یہ اسراف یعنی مال ضایع کرنا ہے۔ البتہ دودھ پلانے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ حلال ہے اور اللہ پاک کی نعمت ہے، لیکن اس کی خرافات اس کے عدمِ جواز کا سبب ہیں، مثلاً دودھ پلانے والی نامحرم لڑکیاں تب تک دلہے کی جان نہیں چھوڑتیں جب تک کہ ان کو منہ مانگی رقم نہ دے دی جائے۔چنانچہ یہ رسم اپنی موجودہ رائج صورت میں بے پردگی وغیرہ کی وجہ سے شرعاً ناجائز و گناہ ہے۔اگر دلہے نے اپنی عزت بچانے کی خاطر رقم دی تو وہ رشوت کے حکم میں ہے۔([5])اگر اس رسم میں صرف دودھ پلایا جائے اور دیگر خرافات نہ ہوں اور دلہا اپنی خوشی سے رقم دے تو حرج نہیں۔ پھر رقم کا لینا بھی جائز ہے۔ البتہ! نوجوان لڑکیوں کو بھی چاہیے کہ اس قسم کی رسومات سے دور رہیں اور اگر انہیں رشتہ داروں کی ناراضی کا خوف ہو تو یاد رکھیں کہ اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔([6]) ہاں!اگر لڑکیاں بالغ نہ ہوں اور وہ دودھ پلائیں تو حرج نہیں۔
شادی کے تحائف: شادی کے موقع پر تحائف دینا بھی رسم بن چکا ہے۔ اس میں زیادہ تر لوگ ایسی چیزیں دیتے ہیں جو کام میں نہیں آتیں یا پھر وہ پہلے سے موجود ہوتی ہیں یا پھر کسی کو سمجھ نہیں آتا تو وہ کافی کپ اٹھا لاتا ہے اور زیادہ تر فوٹو فریم کی بھرمار ہوتی ہے۔ دلہا دلہن یا کسی کو بھی تحفہ دینا ہو تو ایسا تحفہ دیں کہ جو کار آمد ہو اور اگر ممکن ہو تو جس کو تحفہ دینا ہو پہلے اُس کی حاجت معلوم کر لی جائے کہ اسے کس چیز کی حاجت و ضرورت ہے؟پھر اس کی حاجت کے مطابق اسے تحفہ پیش کر دیا جائے۔البتہ!فوٹو فریم اگر کوئی طلب بھی کرے تو نہ دیں، کیونکہ آپ فریم دیں گے تو اس میں لازماً تصویر لگا کر گھر میں لٹکائی جائے گی،اس میں تصویر کی تعظیم لازم آئے گی نیز تصویر کو تعظیم کے ساتھ رکھنا حرام و گناہ ہے اور ایسی جگہ رحمت کے فرشتے بھی داخل نہیں ہوتے۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔([7])تحائف کی جگہ رقم دینا زیادہ اچھا ہے کہ رقم کسی بھی مشکل یا کام میں آسانی کا سبب بنے گی۔
تلاوتِ قرآن کروانا:بعض لوگ دلہن سے تلاوتِ قرآن کرواتے ہیں۔ کہیں اسٹیج پر ہی ایسا کرتے ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ ساؤنڈ سسٹم کا بندوبست کیا ہوتا ہے اور کہیں رخصتی کے بعد دلہن کے گھر پہنچنے پر سب سے پہلے یہ کام کروایا جاتا ہے تا کہ اس کا پہلا کلام تلاوت ہو۔ بلاشبہ تلاوتِ قرآن نزولِ سکینہ کا سبب ہے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے، لہٰذا دلہن کو ایسی جگہ پر بٹھا کر تلاوت کروائی جائے جہاں پر تلاوت کی آواز نامحرم تک نہ پہنچے۔
مقامِ افسوس ہے! شادی کے موقع پر دنیا جہاں کی رسمیں تو ادا کی جاتی ہیں، مگر نماز جو ہر حال میں فرض ہے چاہے سفر و حضر ہو یا خوشی و غمی کا موقع ، بعض نادان عورتیں شادی بیاہ کے موقع پر معاذ اللہ میک اپ خراب ہونے کے ڈر سے یا سستی، غفلت اور عدم توجہ کے سبب نمازیں قضا کر دیتی ہیں۔بے شک دین سخت نہیں مگر یاد رہے! بغیر کسی وجہ شرعی کے ایک وقت کی نماز بھی قضا کر دینا سخت ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔جیسا کہ ایک روایت میں ہے:جس نے جان بوجھ نماز چھوڑی تو اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔([8])شادی کا موقع ہو یا کوئی بھی خوشی کا لمحہ دلہن سمیت ہر ایک کو اپنی نمازوں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے،ایسی صورت میں دلہن کو چاہیے کہ اپنی نماز کا خیال رکھتے ہوئے پہلے سے ہی باوضو رہے تاکہ نماز کے اوقات میں دشواری نہ ہو۔ ورنہ ہزاروں کا میک اپ کر لینے کے بعد بھی وضو کر کے نماز پڑھنا ہی لازم رہے گا تیمم کی اجازت نہ ہو گی،جیسا کہ دار الافتا اہلسنت کی طرف سے اسی کی مثل پوچھے گئے سوال کا جو جواب دیاگیا اس کا خلاصہ ہے کہ دلہن پر بدستور وضو کرکے ہی نماز پڑھنا شرعاً فرض رہے گا۔ کیونکہ میک اپ کا خراب ہو جانا ایسا عذر نہیں ہے جس کے سبب اسے تیمم کرنا جائز ہو۔البتہ ممکنہ صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ دلہن باوضو ہو کر میک اپ کرے،اور پھر اس وضو کو برقرار رکھے تاکہ نمازوں کے اوقات میں اس کو وضو نہ کرنا پڑے، یوں یہ باوضو ہو کر نمازیں پڑھ سکے گی اور میک اپ پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم اگر باوضو ہو کر میک اپ تو کر لیا اور میک اپ کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی حاجت پیش آئی تو اب دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا، فقط میک اپ کے خراب ہو جانے کے سبب تیمم نہیں کر سکتی۔([9])
بھاری لباس کے سبب بیٹھ کر نماز پڑھنا: دلہن کو بھاری لباس پہننے کے سبب کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، چنانچہ مفتی صاحب فرماتے ہیں: بیٹھ کر فرض و واجب نماز یا فجر کی سنتیں پڑھنا جائز نہیں اور نہ ہی اس صورت میں یہ نمازیں ادا ہوں گی۔ ان نمازوں میں قیام فرض ہے اور میک اپ یا بھاری لباس قیام معاف ہونے کا سبب نہیں۔([10])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* دفتر ذمہ دار پاک سطح، شعبہ حج و عمرہ کراچی
Comments