اسلامی عقائد و معلومات
دیدارِ رسول اور اس کی برکتیں (قسط : 03)
* مولانا محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی
ماہنامہ نومبر 2021
ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دیدار کی بھی کیا بات ہے۔ بےشمار اولیا و صُلحا وہ ہیں کہ جنہوں نے خواب میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کا شرف پایا ، اگر ان تمام واقعات کو جمع کیا جائے تو کئی جلدوں پر مشتمل کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ یوں تو بےشمار افراد اَن گِنَت خواب دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن قربان جائیے مصطفےٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کہ ان کا خواب میں تشریف لانا بھی کیسا باکمال ہے کہ عقل دَنگ رہ جائے۔ کسی کو خواب میں رُخسار پر بوسہ دیں تو حقیقت میں نہ صرف گال کو مہکادیں بلکہ پورے کے پورے گھر کو اپنی مبارک خوشبو سے عطر دان بنادیں جیساکہ حضرت محمد بن سعید رحمۃُ اللہِ علیہ کے خواب میں تشریف لاکر رخسار پر بوسہ دیا جس سے اُن کی آنکھ کھل گئی ، اُن کی اہلیہ بھی جاگ اُٹھیں ، اس وقت سارا گھر مُشک کی خوشبو سے مہک رہا تھااور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بوسے کی برکت سےاُن کا رُخسار بھی آٹھ دن تک خوشبو سے مہکتا رہا۔ [1]
نابینا کو بینائی عطا فرما دی :
ان کا خواب میں جلوہ افروز ہونا بھی کیسا مشکل کشائی کرتا ہے کہ بسااوقات نابینا کو بینائی عطا فرما دیتے ہیں جیساکہ جلیلُ القدر امام و مُحَدّ ِث حضرت یعقوب بن سفیان فَسْوِی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میں نے طلبِ حدیث کے لئے کئی شہروں کا سفر کیا۔ ایک بار میری ملاقات ایک شیخ سے ہوئی ، میں ان کے پاس رہنا چاہتا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکوں۔ میرے پاس نَفْقَہ قلیل (یعنی خرچہ کم) تھا نیز میں مُسافر بھی تھا ، اس لئے ہمیشہ رات میں تحریری کام کیا کرتا اور دن میں شیخ کو سنا دیتا۔ میں ایک رات حسبِ معمول لکھ رہا تھا حالانکہ رات کافی گزرچکی تھی اچانک میری آنکھوں میں پانی اُتر آیا اور میری بینائی جاتی رہی۔ مجھے میرا چراغ اور گھر کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں اپنی بینائی اور حصول ِ علم کی نعمت سے محرومی پر زار و قطار رونے لگا۔ آخر کار روتے روتے میں نے ایک جانب ٹیک لگائی تو میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے خواب میں اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کا شرف پایا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے یعقوب بن سفیان!کیوں رو رہے ہو؟ میں نے عرض کی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری بینائی چلی گئی ، مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ غریبُ الوطن ہوں ، آپ کی احادیث لکھنے کی نعمت سے محروم ہوگیا ہوں۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ’’قریب آؤ‘‘ ، میں قریب ہوگیا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میری آنکھوں پراپنا دستِ رحمت یوں پھیرا جیسے کچھ دَم فرما رہے ہوں۔ حضرت یعقوب بن سفیان فَسْوِی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : پھر میں بیدار ہوا تو میری آنکھیں روشن ہوچکی تھیں اور مجھے سب کچھ نظر آرہا تھا۔ پس میں نے فوراً اپنا نسخہ اٹھایا اور چراغ کی روشنی میں احادیث لکھنا شروع کر دیں۔ [2]
آپ کی مہمان نوازی مرحبا :
کسی بھوکے کے خواب میں تشریف لائیں تو عالمِ رؤیا میں ہی ایسی تازہ روٹی عطا فرمائیں کہ جو کھا لی سو کھا لی اور جو بچ گئی وہ ہاتھ میں موجود پائی جیسا کہ جليلُ القدر عارف وامام ، شيخ ُ الشام ، ابو عبدُ اللہ احمد بن یحیٰ ابن الجلاء رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات : 306ھ)فرماتے ہیں : میں مدینۂ منوّرہ زادھَا اللہُ شرفاً وَّ تعظیماً میں حاضر ہوا تو مجھ پر فاقے گزرے۔ میں اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزار پُر انوار پر حاضر ہوکر عرض گزار ہوا : اَنَا ضَیْفُکَ یعنی میں آپ کا مہمان ہوں۔ پھر مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا ، میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا آپ نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی۔ میں خواب میں ہی کھانے لگا ، ابھی آدھی ہی کھائی تھی کہ آنکھ کھل گئی اور باقی آدھی روٹی ابھی میرے ہاتھ میں موجود تھی۔ [3]
مدینے کی دعوت : حضرت سیّدنا بلال حَبشی رضی اللہُ عنہ جن دنوں ملکِ شام میں رہا کرتے تھے آپ کو ایک دن خواب میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت ہوئی تو آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مَا ہٰذِہِ الْجَفْوَۃُ یَا بِلَال ’’اے بلال! یہ کیا جفا ہے؟تم ہم سے ملاقات کرنے نہیں آتے؟‘‘حضرت بلال رضی اللہُ عنہ بیدار ہوگئے۔ آپ نے فوراً رختِ سفر باندھا اور اللہ پاک کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے لئے روانہ ہو گئے۔ [4]
حضرت امام ابو عبدُاللہ محمد بن موسیٰ مالکی (وفات : 683ھ) نے اپنی ایمان افروز کتاب “ مِصْبَاحُ الظَّلَام فِي الْمُسْتَغِيْثِيْنَ بِخَيْرِ الْاَنَام فِي الْيَقْظَةِ وَالْمَنَام “ میں اور حضرت امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے “ شَوَاھِدُ الْحَق فِی الْاِسْتِغَاثَۃِ بِسَیِّدِ الْخَلْق “ میں ایسے کئی واقعات ذکر فرمائے ہیں۔
موئے مبارک خود عطا فرمائے :
حضرت شاہ عبدُ الرّحیم دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ مجھے بخار ہوگیا ، بیماری نے ایسا طول پکڑا کہ میں زندگی سے ناامید ہوگیا۔ ایک دن مجھے اونگھ آگئی۔ اس غُنودگی میں ایک بُزرگ ظاہر ہوئے اور فرمایا : بیٹا! نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہاری عیادت کے لئے تشریف لانے والے ہیں ، شاید اِسی طرف سے تشریف لائیں جس طرف تمہارے پاؤں ہیں ، لہٰذا چارپائی کا رخ بدل لو۔ اتنے میں مجھے کچھ افاقہ ہوا ، بات کرنے کی ہمت تو نہ تھی مگر میں نے حاضرین کو اشارے سے سمجھایا اور انہوں نے میری چار پائی پھیر دی ، اسی وقت نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لےآئے ، لَب ہائے مبارک کی جنبش سے جو الفاظ ترتیب پائے وہ یوں تھے : “ کَیْفَ حَالُکَ یَا بُنَیَّ “ بیٹا! تمہارا کیا حال ہے؟ اس ارشادِ گرامی کی حلاوت مجھ پر ایسی غالب آئی کہ مجھے وجد آگیا ، میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے اس طرح گود میں لے لیا کہ آپ کی ریش مبارک میرے سَر پر تھی ، آپ کی قمیص مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہوگئی ، کچھ دیر بعد میری یہ حالت سکون میں تبدیل ہوگئی ، میرے دل میں خیال آیا کہ ایک عرصہ سے مجھے موئے مبارک (مبارک بال) کی آرزو ہے کہ کہیں سے مِل جائے ، کتناکرم ہوگا اگر آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے یہ دولت عنایت فرمادیں ، بس یہ خیال آنا تھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس خیال سے واقف ہوگئے ، ریش مبارک پر ہاتھ پھیرا اور دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں پکڑا دیئے ، میرے دل میں بات آئی کہ یہ دونوں بال بیداری میں میرے پاس رہیں گے یا نہیں؟ آپ اس خیال سے بھی واقف ہوگئے ، فرمایا یہ دونوں بال اس عالم میں بھی باقی رہیں گے پھرحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے صحتِ کُلی اور طویل زندگی کی بشارت دی ، مجھے اسی وقت آرام آگیا ، میں نے چراغ منگوایا اور دیکھا تو میرے ہاتھ میں دونوں موئے مبارک نہ تھے ، میں نے غمگین ہوکر پھر آقائے دوجہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جناب میں توجہ کی۔ مجھ پر غُنودگی طاری ہوئی اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھ سے فرمانے لگے : میرے بیٹے! میں نے وہ دونوں بال احتیاط کے طور پر تمہارے تکیے کے نیچے محفوظ کردیئے ہیں ، میں نے بیدار ہوتے ہی انہیں لے لیا اور ایک پاکیزہ جگہ میں نہایت تعظیم وتکریم کے ساتھ محفوظ کرلئے ، اس کے بعد بخار تو جاتا رہا مگر کمزوری غالب آگئی ، حاضرین نے سمجھا شاید موت کا وقت آگیا اور وہ رونے لگے ، کچھ عرصہ بعد مجھے قوت حاصل ہوگئی اور میں تندرست ہوگیا۔ [5]
حکیمُ الاُمّت کی حوصلہ افزائی :
حکیم ُ الْا ُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ کو اپنے آقا و مولیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بے پناہ عقیدت و مَحَبَّت تھی۔ ان پر خواب میں جو عنایت ہوئی وہ دیکھئے : منقول ہے کہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ جب اپنی کِتاب ’’امیرِ مُعاوِیہ رضی اللہُ عنہ پر ایک نظَر “ تالیف فرماچکے تَو رات کو دیدارِ مصطفےٰ سے مُشَرَّف ہوئے ۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لب ہائے مُبارَک سے رحمت کے پھول کچھ یوں جھڑنے لگے : تم نے میرے صحابی(یعنی حضرت اَمیرِ مُعَاوِیہ) کی عزّت بچانے کی کوشِش کی ہے ، اللہ تمہاری عزّت بچائے گا۔ [6]
اللہ کریم ہر عاشقِ رسول کو زیارتِ سیدِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تحفے سے نوازے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
[1] القول البدیع ، ص281
[2] سیر اعلام النبلاء ، 10 / 552 ، تہذیب الکمال ، 32 / 332
[3] مصباح الظلام ، ص 61
[4] اسد الغابۃ ، 1 / 307ملخصاً
[5] انفاس العارفین ، ص74
[6] حالاتِ زندگی حکیم الاُمّت ، حیاتِ سالِک ، ص127ملخصاً
Comments