اسلامی عقائد و معلومات
مرحومین کو فائدہ پہنچائیے(قسط : 02)
* مولانا محمد عدنان چشتی عطّاری مدنی
ماہنامہ مارچ2021
گزشتہ ماہ کےمضمون میں آپ نے پڑھا کہ مسلمان کی نمازِ جنازہ میں 40یا100مسلمان شریک ہوجائیں تو اللہ کریم اس کی مغفرت فرمادیتا ہے ، نیزمسلمان کی قبر پر ہری شاخیں ڈالنا بھی اس کی راحت کا سبب ہے ، اس مضمون میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسی مبارک عمل کے کچھ واقعات ، فرامین اور دلائل ملاحظہ کیجئے :
(1)صحابی نے قبر سے آنے والی آواز سنی : حضرت سیدنا ىعلىٰ بن مُرّہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےفرماتے ہیں : ہم رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ قبرستان(Graveyard) کے پاس سے گزرے تو مىں نے اىک قبر سے بھینچنے کی آواز سُنى تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتایا۔ توآپ نے ارشاد فرمایا : یَعلیٰ!کیا واقعی تم نےسنی ہے؟ میں نے عرض کی : جی ہاں۔ ارشاد فرمایا : ىہ آدمی آسان سى بات کى وجہ سے عذاب مىں مبتلاہے۔ مىں نےعرض کى : وہ کىاہے؟ارشاد فرماىا : یہ فتنہ باز آدمی تھا ، لوگوں کی چُغلیاں کرتا تھااورپیشاب سےنہ بچتا تھا۔ پھر حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھجور کی ایک شاخ منگوائی اس کے دو حصے کئے اور فرمایا : اِغْرِسْ اِحْدَاهُمَا عِنْدَ رَاسِهٖ وَالْاُخْرٰى عِنْدَ رِجْلَيْهِ یعنی ایک کو اس کے سر کی طرف اور دوسری کو اس کے پیروں کی طرف گاڑ دو۔ جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی امید ہے کہ اس کا عذاب ہلکا رہے گا۔ [1]
(2)عذاب کے اسباب : مُصَنَّف عبدالرزاق میں ہے : نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا : یہ فلاں کی قبر ہے ، یہ فُلاں کی قبر ہے۔ پھر ان کے عذاب کا ذکر فرما کر دونوں پر سبزشاخ لگا دی۔ اس روایت میں ایک کے عذاب کا سبب یوں بیان فرمایا : وَاَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَهْمِزُ النَّاسَ ترجمہ : البتہ دوسرا تو وہ لوگوں کی غیبت کیا کرتا تھا۔ [2]
(3)حضرت قتادہ اورحضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہما سے روایت ہے : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دو قبروں کے پاس سے یوں گزرے کہ آپ خچر پر سوار تھے ۔ وہ خچر راستے سے ہٹنے لگا۔ پھر ہر قبر پر کھجور کی تر شاخ ڈالنے کا ذکر ہے۔ [3]
(4)شاخ پہلے کون لایا : حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بار میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ یوں چل رہا تھا کہ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا ، ایک آدمی آپ کے بائیں طرف تھا۔ اچانک ہم دو قبروں کے سامنے پہنچ گئے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا۔ پھر فرمایا : تم میں سے کون میرے پاس ٹہنی لائے گا؟ حضرت ابوبکرہ نے کہا : میں پہلے شاخ لے کر آ گیا۔ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے دو حصے کر کے دونوں قبروں پر ڈال دیئے ۔ [4]
(5)جب بقیعِ غَرقَد سے گزر ہوا : حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک دن شدید گرمی میں بقیعِ غرقد کی طرف یوں تشریف لے گئے کہ لوگ آپ کے پیچھے چل رہے تھے۔ جب آپ بقیعِ غرقد سے گزرے تو وہاں دو قبروں کو دیکھ کرآپ نے پوچھا : تم نے آج یہاں کس کو دفن کیا؟ لوگوں نے بتایا : فلاں فلاں کو۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : یہ دونوں عذاب میں ہیں ۔ (عذاب کی وجہ یہ ہے کہ)ایک چغلی کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا ، پھر آپ نے ایک سبز شاخ کے دو حصے کر کے ان کی قبروں پر رکھ دئیےتو صحابہ نے پوچھا : يَانَبِيَّ اللهِ ، وَلِمَ فَعَلْتَ؟ یعنی یارسولَ اللہ آپ نے یہ کیوں کیا؟تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لِيُخَفَّفَ عَنْهُمَا یعنی تاکہ ان دونوں پر تخفیف کر دی جائے۔ [5]
(6)ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ چل رہے تھے کہ ہمارا گزر دو قبروں کے پاس سے ہواتو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رُک گئے ، ہم بھی آپ کے ساتھ ٹھہر گئے۔ آپ کا رنگ بدلنے لگا یہاں تک کہ آپ کی آستین کپکپانے لگی۔ ہم نے کہا : یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ کو کیا ہوا ؟ فرمایا : کیا جو میں سن رہا ہوں وہ تم بھی سن رہے ہو ؟ ہم نے کہا : وہ کیا یا رسولَ اللہ؟ فرمایا : ان دونوں کو قبر میں ایسے گناہ پر سخت عذاب ہو رہا ہے جس سے بچنا آسان تھا۔ ہم نے پوچھا : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس گناہ کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے؟ فرمایا : ان میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا اپنی زبان سے لوگوں کو تکلیف دیتا اور چغل خوری کرتا تھا ۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھجور کی دو ٹہنیاں منگوائیں اور دونوں کی قبروں پر ایک ایک رکھ دی ۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا اس سے انہیں فائدہ ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا : نَعَمْ ، يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا دَامَا رَطْبَتَيْنِ یعنی ہاں ، ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی جب تک یہ ٹہنیاں تَر رہیں گی۔ [6]
(7)شاخ پہلے سے ہی پاس تھی : حضرت عبدُاللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ایک دن حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چند قبروں کے پاس سے گزرے ، آپ کے پاس تَر شاخ تھی ، آپ نے اس کے دو ٹکڑے کئے اور دو قبروں پر ایک ایک رکھ دیا ، ہم نے پوچھا : يَارَسُولَ اللَّه لِمَ فَعَلْتَ ذَاكَ یارسولَ اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا : لَنْ يُعَذَّبَا مَا دَامَتْ هَذِهٖ رَطْبَةً یعنی ان دونوں کوہرگز عذاب نہیں ہو گا جب تک یہ تَر و تازہ رہیں گی ۔ [7]
(8)ایک تازہ شاخ منگوائی : حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک سفر میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ تھے اتنے میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرے جن میں عذاب ہو رہا تھا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عذاب کا سبب (Reason) ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ایک کو غیبت اور دوسرے کو پیشاب کی وجہ سے عذاب ہورہا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک تازہ شاخ منگوا کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور دونوں قبروں پر رکھ دیئےاور فرمایا : مجھے امید ہے کہ ان دونوں کے عذاب میں نرمی رہے گی جب تک یہ خشک نہیں ہوجاتیں۔ [8]
(9)سرہانے کی طرف شاخ گاڑ دی : ایک روایت میں اس بات کی بھی صَراحت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شاخ کے دو حصے کر کے دونوں قبروں کے سَر کی جانب گاڑ دیئے جیسا کہ ان الفاظ سے ظاہر ہے : ثُمَّ غَرَزَ عِنْدَ رَأْسِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا قِطْعَةً ۔ [9]
(10)پڑوسیوں نے عذاب کی خبر دی : حضرت ابراہیم نخعی رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں کو قبر میں عذاب ہو رہا تھا۔ ان کے پڑوسیوں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے یہ معاملہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا : خُذُوا كُرْبَتَيْنِ وَاجْعَلُوهُمَا فِي قُبُورِهِمَا يُرَفَّهٗ عَنْهُمَا الْعَذَابُ مَا لَمْ يَيْبَسَا یعنی کھجور کی شاخ کی دو جڑیں لو اور ان کی قبروں پر رکھ دو ، وہ جب تک خشک نہیں ہوں گی عذاب میں کمی رہے گی۔ حضرت ابراہیم نخعی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا ان دونوں کو عذاب کیوں ہو رہا ہے؟ فرمایا : چغلی اور پیشاب کی وجہ سے۔ [10]
(11)ایک قبر عورت کی تھی : حضرت امام بیہقی رحمۃُ اللہِ علیہ کی نقل کردہ ایک روایت میں یہ بھی ہےکہ ایک قبر مرد کی تھی جسے پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا جبکہ دوسری قبر ایک عورت کی تھی جسے لوگوں کی چغلیاں کرنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا۔ [11]
کھجور کی ٹہنی ہی کیوں؟شارحِ بخاری ، امام سراجُ الدّین ، ابوحَفص عُمر بن علی المعروف ابنِ مُلَقِّن شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ بیان فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےقبر پر گاڑنے کے لئے تمام درختوں میں سےصرف کھجور کے درخت کی شاخ اس لئے منتخب فرمائی : (1)یہ پھل دار درختوں میں سب سے زیادہ عرصہ تک باقی رہنے والا ہے۔ لہٰذا عذاب میں کمی بھی طویل مدت تک رہے گی (2)یہ پاکیزہ درخت ہے ، اللہ پاک نےقراٰن کریم میں اسے شَجَرَةٌ طَيِّبَةٌ کا نام دیا ہے (3)یہی وہ درخت ہے جسے رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مؤمن کے مُشابہ کہاہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق (Creation) سےبچ جانے والی مٹی سے اسے بنایا گیا۔ [12]
قبر پر ٹہنی رکھنے کا واقعہ متعدد بار ہوا : قبروں پرہری شاخیں رکھنے کےبارے میں احادیثِ پاک کےالفاظ ، مختلف صحابَۂ کرام کا اسےروایت کرنا ، اسبابِ عذاب کا جُدا جُدا ذکرفرمانانیز محدثینِ کرام کی تصریحات صاف بتاتی ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ عمل کئی بار کیا ہے ، جائز اور باعثِ اجر ہونے کیلئے اگرچہ ایک بار عمل کرنے کا ثبوت بھی کافی ہے لیکن متعدَّد بار نے اس کی اہمیت (Importance) کو مزید بڑھادیا ہے ۔ شارح بخاری علامہ قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ [13]
اللہ ربّ العزّت ہر مسلمان کوقبر و حشر کے عذاب و عتاب سے محفوظ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] دلائل النبوة للبیہقی ، 7 / 42 مختصراً
[2] مصنف عبدالرزاق ، 3 / 394 ، حدیث : 6783
[3] مصنف عبدالرزاق ، 3 / 394 ، حدیث : 6782
[4] مسند امام احمد ، 34 / 7 ، حدیث : 20373
[5] مسند احمد ، 36 / 625 ، حدیث : 22292 مختصراً
[6] صحیح ابن حبان ، 2 / 96 ، حدیث : 821
[7] معجم الاوسط ، 3 / 221 ، حدیث : 4394مختصراً
[8] مسند ابو یعلیٰ ، 2 / 290 ، حدیث : 2051 مختصراً
[9] المنتخب من مسند عبد بن حمید ، ص210 ، حدیث : 620
[10] اثبات عذاب القبر للبیہقی ، ص136 ، حدیث : 237
[11] اثبات عذاب القبر للبیہقی ، ص87 ، حدیث : 122
[12] التوضیح لابن ملقن ، 10 / 120 ، تحت الحدیث : 1361
[13] ارشادالساری ، 1 / 286 ، تحت الحدیث : 216
Comments