نئے لکھاری
عورتوں میں پائی جانے والی پانچ بد شگونیاں
* بنتِ علی محمد
ماہنامہ ستمبر 2021
اللہ پاک نے انسان کو دو باطنی قوتوں کا مجموعہ بنایا ہے ، ایک عقل اور دوسری شہوت ، پھر ان دونوں قوتوں کے کچھ مددگار مقرر فرمائے ہیں ، پہلی قوت کے مددگار حضراتِ انبیا ، فرشتے اور نیک لوگ ہیں ، دوسری قوت کے مددگار شیطان ، نفس اور بُرے لوگ ہیں ، انسان اگر عقل کی بات مانتا ہے تو وہ اسے تقویٰ و پرہیزگاری کی طرف لے جاتی ہے اور اگر شہوت و خواہش کے پیچھے چلتا ہے تو وہ اسے فسق و فجور کی جانب لے جاتی ہے۔
پہلی چیز کو اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دوسری بات کو اس کی نافرمانی و گناہ کہا جاتا ہے ، جس طرح اطاعت بالاتفاق عمدہ وپسندیدہ ہے ، اسی طرح گناہ بھی بُرا و ناپسندیدہ ہے ، اطاعت انسان کو دنیا و آخرت میں عزت و عظمت سے سرفراز کرتی ہے ، جبکہ گناہ اسے ذلت و رسوائی کے گہرے گڑھے میں پہنچا دیتا ہے ، یہ واضح رہے کہ جب تک گناہوں کی پہچان نہ ہوگی ان سے بچنا مشکل ہے ، لہٰذا ان کی پہچان بہت زیادہ ضروری ہے ، خاص طور پر آج کے زمانے میں کہ جہاں ہر سُو گناہوں کی بھرمار ہے ، جھوٹ ، غیبت ، حسد ، تکبر وغیرہ گناہوں کو گویا گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا ، ان ہی میں سے ایک بدشگونی ہے ، بدشگونی سے مراد یہ ہے کہ “ کسی چیز ، شخص ، عمل یا آواز یا وقت کو اپنے حق میں بُرا سمجھنا۔ “
اس کے متعلق فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے : جس نے بد شگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی ، وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسند بزار ، 9 / 52 ، حدیث : 5378)
حضرت امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : بد شگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص 286)
آج کل عورتوں میں طرح طرح کی بدشگونیاں پائی جاتی ہیں ، مثلاً
(1)کنواری لڑکی اگر میت کو غسل دے تو اسے آسیب کا مسئلہ ہوجائے گا۔
(2)کنواری لڑکی اعتکاف کرے تو اس پر جنات کے اثرات ہو جائیں گے۔ مَعاذَ اللہ
(3)تجہیز و تکفین سے بچے ہوئے سامان کو استعمال کرنے سے نحوست آتی ہے۔
(4)شیشہ ٹوٹے تو کچھ بُرا ہونے والا ہے۔
(5)اگر کتا روئے یا بلی چھت پر آ کر بولے تو اس گھر میں یا آس پاس میں کہیں کوئی فوت ہونے والا ہے۔
بدشگونی انسان کی دنیاوی زندگی کے لئے بھی خطرناک ہے کہ اس سے حوصلے پَست ہوتے ہیں اور وہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اپنے سائے سے بھی ، اس کا سکون برباد ہو جاتا ہے ، اسے لگتا ہے کہ ساری بدنصیبی میرے اِردگرد جمع ہو چکی ہے اور باقی لوگ سکون سے زندگی گزار رہے ہیں ، اس کی وجہ سے انسان ذہنی و قلبی طور پر پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان کے دل میں بعض اوقات بُرے شگون کا خیال آ ہی جاتا ہے ، اس لئے کسی شخص کے دل میں بدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گناہ گار نہیں قرار دیا جائے گا ، اگر کسی نے بدشگونی کا خیال دل میں آتے ہی اسے جھٹک دیا تو اس پر کچھ الزام نہیں ، لیکن اگر اس نے بد شگونی کی تاثیر کا اعتقاد رکھا اور اس اعتقاد کی وجہ سے اس کام سے رک گیا تو گناہ گار ہوگا۔
اللہ پاک ہمیں بدشگونی اور دیگر باطنی بیماریوں سے شفا دے ، ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* درجہ رابعہ ، جامعۃُالمدینہ للبنات ، بھٹہ گاؤں ، لاہور
Comments