تذکرۂ صالحین

تُو مُجَدِّد بن کے آیااے امام احمد رضا

* مولانا ابوالحسنین عطاری مدنی

ماہنامہ ستمبر 2021

ابتدائے اسلام سے آج تک ہر صدی کے آخر میں بڑے بڑے فتنے ظاہر ہوئے جن پر قابو پانے کے لئے اللہ پاک نے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل اپنے مخصوص بندوں کو بھیجا جنہوں نے دینِ اسلام کی تعلیمات کو نئے سِرے سے تر و تازہ کرکے مسلمانوں تک پہنچایا۔ صدی کے آخر میں تشریف لاکر دینِ اسلام کو باطل کی آمیزش سے پاک کرنے والی مخصوص صِفات کی حامل ان شخصیات کو مُجَدِّد کہا جاتا ہے۔ اس عظیم خدمت کیلئے   14ویں صدی ہجری میں اللہ پاک نے ہندوستان کے شہر بریلی سے ایک عظیم عاشقِ رسول کو منتخب فرمایا جنہیں دنیا امامِ اہلِ سنّت ، امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے نام سے جانتی ہے۔

مُجَدِّد کی تعیین کیسے ہوتی ہے؟

امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : کسی بزرگ کے مُجَدِّد ہونے کا فیصلہ ان کے ہم زمانہ عُلما کے بیان سے ہوتا ہے جو ان بزرگ کی دینی خدمات اور ان کے علم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر اپنے غالب گمان کے مطابق انہیں مُجَدِّد قرار دیتے ہیں۔ [1] مفتی شریفُ الحق امجدی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : کسی (مخصوص فرد) کے مُجَدِّد ہونے پر اب کوئی دلیلِ مَنصُوص (یعنی قراٰن و حدیث کی دلیل) نہیں ہوسکتی ، وحی کا سلسلہ مُنْقَطِع ہے۔ اب یہی دلیل ہے کہ اس عَہْد کے علما ، عوام ، خَواص جسے مُجَدِّد کہیں وہ مُجَدِّد ہے۔ [2]

امامِ اہلِ سنّت کے مُجَدِّد ہونے کا اعلان :

سب سے پہلے 1318ھ میں پٹنہ شہر میں منعقدہ ایک عظیم اجلاس جس میں اس وقت کے تمام اکابرِ اہلِ سنّت موجود تھے ، اس میں حضرت علامہ قاضی عبدالوحید صاحب  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے امامِ اہلِ سنّت کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا جس کا ایک مِصرع یہ ہے : مُجَدِّدُ عَصْرِہٖ اَلْفَرْدُ الْفَرِیْد یعنی یہ اپنے زمانے کے مُجَدِّد اور یکتا و یگانہ ہیں۔ اسی اجلاس میں خانقاہِ قادریہ بدایوں شریف کے سجّادہ نشین مُطیعُ الرّسول مولانا شاہ عَبْدُ الْمُقْتَدِر صاحب قادری  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے امامِ اہلِ سنّت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا : جناب عالمِ اہلِ سنّت ، مُجَدِّدِ مائۃ حاضرۃ (موجودہ صدی کے مُجَدِّد) مولانا احمد رضا خان صاحب۔

ان دونوں بزرگوں کے یہ ارشادات سُن کر تمام علما نے قبول فرمایا ، کسی نےرد و انکار نہیں فرمایا۔ یہ حقیقت میں ہندوستان کے علمائے اہلِ سنّت کا اس پر اجماع ہے کہ 14ویں صدی کےمُجَدِّداعلیٰ حضرت ہیں۔ [3]

سورج سے زیادہ روشن :

مَلِکُ الْعُلَماء ، خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا ظفر الدین بہاری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : یہ بات سورج سے زیادہ روشن ہے کہ امامِ اہلِ سنّت کے زمانے کے علما و مشہور شخصیات نے آپ کے عُلوم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر آپ کو مُجَدِّد مانا۔ اگر ان تمام حضرات کے صرف نام ہی لکھے جائیں جنہوں نے آپ کو مُجَدِّد مانا تو اس کے لئے ایک دفتر درکار ہو۔ [4]

مُحْیِ سنّت اور مُجَدِّد اس صدی کے آپ ہیں

اے اِمامِ مفتیاں احمد رضا خاں قادری[5]

مُجَدِّدکی 5علامات اور امامِ اہلِ سنّت کی ذات :

اے عاشقانِ رضا! مُجَدِّد کی علامات کی روشنی میں امامِ اہلِ سنّت کی صفات اور  تجدیدی کارنامے تفصیلاً بیان کرنے کے لئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں۔ شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی ایک تحریر کی روشنی میں اختصار کے  ساتھ امامِ اہلِ سنّت کی ذات میں پائی جانے والی مُجَدِّد کی 5علامات ملاحظہ فرمائیے :

پہلی علامت :

مُجَدِّد وہ ہوگا جو ایک صدی کے آخر اور دوسری صدی کے ابتدائی حصہ میں موجود ہو۔

امامِ اہلِ سنّت :

 امامِ اہلِ سنّت کی ولادت10شوال 1272ھ بروز پیر جبکہ وصال 25صفر 1340ھ جمعۃُ المبارک کے دن ہوا ۔ اس طرح آپ نے 13ویں صدی ہجری کے28سال 2مہینے 20 دن جبکہ 14ویں صدی کے 39سال 1مہینہ 25دن پائے ۔

دوسری علامت :

مُجَدِّد اپنے علم و فضل ، وَرَع و تقویٰ ، اِسْتِقامت فِی الدِّین ، تحریر اورتقریر میں ایسایکتا ہو کہ عوام و خواص سب اپنی دینی ضرورتوں میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں اور سب اس کی باتوں کو تسلیم کرتے ہوں۔

امامِ اہلِ سنّت :

اعلیٰ حضرت نے 8سال کی عمر میں وِراثت (Inheritance) کا ایک صحیح مسئلہ تحریر فرمایا۔ 10 سال کی عمر میں ’’ہِدَایَۃُ النَّحْو‘‘کی عربی شرح لکھی۔ شعبان 1286ھ میں اس وقت کے دینی نِصاب میں مُروَّجہ تمام عُلومِ دَرسِیہ سے فراغت کے بعد 13 سال  10مہینے  4دن کی عمر میں والدِ ماجد نے آپ کو فتویٰ لکھنے کی اجازت عطا فرمائی۔

13ویں صدی کے اختتام تک آپ اَلسَّعْیُ الْمَشْکُور ، ضَوْ ءُ النِّھَایَۃ ، اِعْتِقادُ الْاَحْبَاب ، اَنْفَسُ الْفِکْر ، مَطْلَعُ الْقَمَرَیْناور اِقَامَۃُ الْقِیامَۃ سمیت کئی اہم اور تحقیقی رسائل سمیت ہزاروں سوالات کے جوابات لکھ چکے تھے۔

1295ھ میں جب آپ کی عمر کا 23واں سال جاری تھا ، پہلے سفرِ حج کے لئے حَرَمینِ طیبین حاضر ہوئے تو شیخ حسین بن صالح  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی درخواست پر ان کے رسالے اَلْجَوھَرَۃُ الْمَضِیَّۃْ کی عربی شرح اَلنَّیِّرَۃُ الوَضِیَّۃْ صرف 2 دن میں تحریر فرمائی جسے پڑھ کر عُلمائے کرام حیرت زدہ ہوگئے اور آپ کے انوارِ علم کا اعتراف کیا۔

الغرض 13ویں صدی کے آخر تک آپ کے علم و فضل کی شہرت سرزمینِ ہند سے لے کر ارضِ حجاز تک پہنچ چکی تھی۔ عوام تو عوام ، مشہور علمائے کرام بھی اہم معاملات اور مذہبی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرنے لگے تھے۔ [6]

تیسری علامت :

دینی عُلوم و فنون اور جو علوم و فنون دینی علوم و فنون کے لئے ذریعہ ہیں ، سب کا جامِع ، ماہر اور سب کی تنقید و  تصویب کا مَلَکَۂ تَامَّہ (مکمل صلاحیت)رکھتا ہو۔

امامِ اہلِ سنّت :

اعلیٰ حضرت کی تصانیف کا جو بھی مطالعہ کرے گا اس پر واضح ہوجائے گا کہ آپ تمام عُلوم و فُنُون میں ، خواہ دینی  ہوں یا دنیوی ، سب میں مہارت رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 51 یا 52 عُلوم و فُنُون میں آپ نے تقریباً ایک ہزار کتابیں تصنیف فرمائیں اور ہر تصنیف اپنی جگہ بے مثال و لاجواب ہے۔

صرف فتاویٰ رضویہ کو لے لیجئے۔ جدید ترتیب اور تخریج کے بعد اس کی 30 ضخیم جلدیں ہیں۔ کہنے کو تو یہ فتاویٰ کا مجموعہ ہے مگر حقیقت میں علمِ قراٰن ، تفسیر ، اصولِ تفسیر ، حدیث ، اصولِ حدیث ، اسمائے رِجال ، لُغَت ، علمِ بیان ، مَعانی ، بَدیع ، فقہ ، اصولِ فقہ ،  رَسمُ المفتی ، صَرْف ، نَحْو ، علمِ کلام ، سِیَر ، تاریخ ، تَصَوُّف ، حساب ، ہَیْئَت ، علمِ تَوقیت ، جغرافیہ ، ہَیْئَتِ قدیم ، ہَیْئَتِ جدید ، اَخلاق ، تجوید ، قرأت ، علمِ فرائض وغیرہ علوم کا خزانہ ہے۔ جس کا جی چاہے مطالعہ کرکے اطمینان کرلے۔ پھر ایسی باریک بحثیں فرمائیں اور عقل کو حیران کردینے والے ایسے ایمان افروزنکات بیان فرمائے کہ بڑے بڑے علما حیران ہیں۔ الغرض مجدّدِ دین و ملّت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  تمام علوم و فنون میں یکتائے روزگار ، ماہر فائق تھے ، خواہ وہ دینی عُلوم ہوں یا دنیوی۔

چوتھی علامت :

سنّت کی حمایت و نُصرت اور بدعت کا اِستیصال اور اس کی بیخ کنی(جڑ سے اُکھاڑنے) میں مصروف ہو۔

امامِ اہلِ سنت :

14ویں صدی کے تمام عُلما کے کارناموں او ر امامِ اہلِ سنّت کے جو کارنامے اب تک منظرِ عام پر آسکے ہیں ان کا موازنہ (Comparison) کیجئے تو ظاہر ہوجائے گاکہ تنہا اعلیٰ حضرت کے کارنامے پوری صدی کے تمام عُلما کے کارناموں پر بھاری ہیں۔ اعلیٰ حضرت کے فتاویٰ اور رسائل کا مطالعہ کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے ایک نہیں سینکڑوں سنّتوں کو زندہ فرمایا ، اس کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان سب کو ذکر کرنے کے لئے ایک ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔

سنّت زندہ کرنے کے لئے بدعت کو ختم کرنا ضروری ہے اور بدعت کی 2قسمیں ہیں : اعتقادی اور عملی۔ امامِ اہلِ سنّت نے اعتقادی بدعتوں اور غیراسلامی عقیدوں کے خلاف تقریباً 500 کتابیں لکھیں اور جزئی طور پر ہزاروں فتاویٰ لکھے جو چھپے ہوئے موجود ہیں۔ عملی بدعات میں سے آپ نے سجدۂ تعظیمی ، عورتوں کی اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری ، داڑھی منڈانا یا کترنا ، اسلامی وضع چھوڑ کر انگریزوں کی وضع اختیار کرنا وغیرہ سینکڑوں بدعات کی تردید فرمائی اور اپنے روحانی تَصَرُّف سے کروڑوں بندگانِ خدا کو سنّت کا پابند بناکر بدعتوں سے دور فرمادیا۔

پانچویں علامت :

حفاظتِ دین کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرے ، اسلام دشمن اَفکاراور تحریکات کےخلاف مصروف رہے۔

امامِ اہلِ سنّت :

دین کی حفاظت کرنے ، برائیوں کو ختم کرنے کے لئے امامِ اہلِ سنّت نے اپنے خرچ سے کتابیں چھپوائیں ، پریس لگایا اور مدارس قائم کئےتاکہ اس مشن کو چلانے والے عُلما تیار ہوں۔ خود درس دے کر باصلاحیت ، دین دار مُخْلِص علما تیار کئے ، بڑے بڑے اجلاس کئے ، عُلما سے گمراہیت کے خلاف تقریریں کروائیں ، خود تقریریں کیں اور مختلف تنظیمیں قائم فرمائیں۔ آ پ کی قائم کردہ جماعتِ رضائے مصطفیٰ نے اسلام کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ جب مسلمانوں کو مُرتد بنانے کے لئے باقاعدہ تحریک چلائی گئی تو اس تنظیم نے کروڑوں مسلمانوں کو مُرتد ہونے سے بچایااور لاکھوں غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔

خلاصہ یہ کہ علمائے کرام نے مُجَدِّد کی جو نشانیاں لکھی ہیں وہ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  میں مکمل طور پر موجود ہیں جس کی بنا پر عُلمائےعرب وعجم ، حِلّ و حَرَم نے آپ کو 14ویں صدی کا مُجَدِّد قرار دیا ہے۔ [7]

زور باطل کا ، ضَلالت کا تھا جس دم ہند میں

تُو مُجَدِّد بن کے آیا اے امام احمدرضا[8]

 علمائے عرب کا امامِ اہلِ سنّت کو مُجَدِّد قراردینا :

صرف غیر منقسم ہندوستان ہی نہیں بلکہ مکۂ مکرّمہ ، مدینۂ منوّرہ ، شام ، مصر اور یمن وغیرہ کئی ممالک کے اکابر علمائے کرام ، مفتیانِ عظام اور شُیُوخُ الحدیث نےامامِ اہلِ سنّت کی علمی و دینی خدمات کا اعتراف کیا اور آپ کو مُجَدِّد قراردیا۔ تفصیل جاننے کے لئے حُسَّام ُ الْحَرَمَین اور اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ وغیرہ امامِ اہلِ سنّت کی کتابوں پر عرب دنیا کے عُلمائے کرام کی تَقریظات کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں نمونے کے طور پر صرف ایک عرب عالمِ دین ، مکۂ مکرّمہ میں مسجدُ الحرام شریف کی کتابوں کے محافظ (Librarian) حضرت علامہ مولانا سيد ا سماعیل خلیل  رحمۃُ اللہِ علیہ  کے تاثرات ملاحظہ فرمائیے۔ حُسَّام ُ الْحَرَمَین پر اپنی تَقریظ میں لکھتے ہیں : اَقُوْلُ لَوْ قِیْلَ فِیْ حَقِّہٖ اَنَّہٗ مُجَدِّدُ ہٰذَا الْقَرْنِ لَکَانَ حَقّاً وَ صِدْقاً یعنی میں کہتا ہوں کہ اگر ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ اس صدی کے مُجَدِّد ہیں تو یہ بات ضرور حق اور سچ ہے۔ [9]

اللہ پاک امامِ اہلِ سنّت کے فُیُوض و بَرَکات کو مزید عام فرمائے اور تمام مسلمانوں کو آپ کے علمی فیضان سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی



[1] اَلتَّنْبِئَةُ ، ص62

[2] فتاویٰ شارحِ بخاری ، 3 / 350

[3] فتاویٰ شارحِ بخاری ، 3 / 357 ملخصاً

[4] حیاتِ اعلیٰ حضرت ، 3 / 151 تسہیلاً

[5] قبالۂ بخشش ، ص352

[6] امامِ اہلِ سنت کی طرف علمائے کرام کے رجوع کی تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ جلد1(حصہ اول) کے صفحہ 31 پر موجود شیخُ الحدیث حضرت علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی  رحمۃ اللہ علیہ  کا مقالہ ملاحظہ فرمائیے۔

[7] فتاوی شارحِ بخاری ، 3 / 352ملخصاً

[8] وسائلِ بخشش ، ص32

[9] حیاتِ اعلیٰ حضرت ، 3 / 153


Share

Articles

Comments


Security Code