Book Name:Ahal Jannat-o-Ahal Jahannum Ka Mukalama
اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اس دنیا میں ہم صرف عمل کا اختیار رکھتے ہیں ، اس عمل کا نتیجہ کیا نکلے گا ، اس کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہے۔ اللہ پاک نے سورۂ فاتحہ میں ارشاد فرمایا :
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ(۳) (پارہ1 ، سورۃالفاتحہ : 3)
ترجمہ کنز الایمان : روزِجزاء کامالک۔
اس آیت میں اللہ پاک نے “ مٰلِکِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ قیامت کے دن کا مالک “ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا : مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن روزِ جزاء کا مالک۔ اس کے تحت امام بُقاعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ علیہ فرماتے ہیں : یَوْمُ الدِّیْن سے مراد اَصْل میں تو قیامت ہی ہے کہ حقیقتاً سزا اور جزاء کا معاملہ قیامت کے دِن ہی ہوگا۔ البتہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بندہ جیسے ہی کوئی عمل کرتا ہے ، اس کا نتیجہ فوراً ہی ظاہِر ہو جاتا ہے ، مثلاً اگر کوئی شخص معاذ اللہ گُنَاہ کرتا ہے تو حدیثِ پاک کے مطابق اس کے دِل پر سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کے دِل میں نیکی کا نور آتا ہے ، سیاہی دھلتی ہے۔
اسی طرح مزید غور کریں! ہم کھانا کھاتے ہیں ، کھانا کھانے یا نہ کھانے کا اختیار ہمارے پاس ہے مگر یہ کھانا پیٹ میں جا کر کیا کرے گا؟ شفاء بنے گا یا مرض بنے گا؟یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ معلوم ہوا ہم صِرْف کام کااختیار رکھتے ہیں ، اس کے نتیجے کا اختیار ہمارے پاس نہیں بلکہ اللہ پاک کے پاس ہے۔ اب دوبارہ آیتِ مبارکہ سنیئے :
كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ(۳۸) (پارہ29 ، سورۃالمدثر : 38)
ترجمہ کنز الایمان : ہر جان اپنی کرنی میں گروی ہے
معلوم ہوااَعمال تِیْر کی مانند ہیں ، تِیْر جب کمان سے نکل جائے تو پلٹ کر نہیں آتا ، اسی