محبوبِ خدا سے ملنے کی جگہ

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ( قسط : 23 )

محبوبِ خدا سے ملنے کی جگہ

*مولانا ابو الحسن عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری2023ء

 ( 44 ) اَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الحَوْضِ ترجمہ : میں حوض  ( کوثر )  پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔  [1]

 ( 45 ) اَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ترجمہ : میں تمہارا گواہ ہوں گا۔[2]

ایسی احادیثِ مبارکہ ذخیرۂ حدیث میں الفاظ کے مختصر سے فرق سے بکثرت موجود ہیں۔ بعض روایات میں ” اَنَا “ کی جگہ ” اِنِّی “ مروی ہے ، نیز بعض روایات میں یہ دونوں فرامین ایک ہی روایت میں بھی مروی ہیں اور ” اَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ “ کے الفاظ جدا بھی مروی ہیں۔

نیز کثیر روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہ مبارک فرامین ایک نہیں بلکہ کئی مواقع پر ارشاد ہوئے۔

ایک تفصیلی روایت میں ہے کہ حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شہدائے اُحد پر آٹھ سال کے بعد ایسے نماز پڑھی کہ جیسے آپ زندوں اور فوت شدگان سے رخصت ہو رہے ہوں ، پھر آپ منبر پر جلوہ گر ہوئے اور فرمایا : میں تمہارے آگے پیش رو ہوں اور میں تمہارا گواہ ہوں اور تمہارے وعدہ کی جگہ حوض ہے اور میں اسے اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں اور میں تم پر یہ خوف نہیں کرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن میں تم پر دنیا کا خوف کرتا ہوں کہ تم اس میں رغبت کر جاؤ۔

صحابۂ کرام اس فرمان سے سمجھ گئے تھے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پردہ فرمانے کا وقت قریب آچکا ہے جیسا کہ راویِ حدیث حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں : ” فَكَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا اِلٰى رَسُولِ اللَّهِ  صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  یعنی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یہ فرماتے وقت جو میں نے دیدار کیا یہ آخری دیدار تھا۔ “[3]

اے عاشقانِ رسول ! ان روایات میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو مبارک اوصاف کا بیان ہے : (1 ) فَرَط  ( 2 ) شَهِيدٌ

 ” فَرَط “ فَرَطَ یَفْرُطُ سے صفتِ مشبہ کا صیغہ ہے۔[4]اس کے معنیٰ ہیں پیش رو ، راہنمائی کرنے والا ، آگے جانے والا۔ محاورہ عرب میں فَرط اُسے کہتے ہیں جو لشکر یا قافلے سے پہلے آگے جاکر پانی وغیرہ کی جگہ تلاش کرے اور آنے والوں کے ٹھہراؤ وغیرہ کا انتظام کرے جیسا کہ حافظ عراقی رحمۃُ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔[5]

فرط کے معنیٰ و مفہوم کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لئے یہ دو روایات اور شرح پڑھئے :

مؤمنین کے جو بچے نابالغی میں فوت ہوجاتے ہیں انہیں بھی والدین کے لئے فرط فرمایا گیا ہے جیسا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ بابرکت ہے : مَنْ كَانَ لَهٗ فَرَطَانِ مِنْ اُمَّتِي اَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِمَا الجَنَّةَ یعنی میری امت میں سے جس کے دو بچے فرط ہوں  ( یعنی نابالغی میں ہی فوت ہو کر آگے چلے گئے )  اللہ کریم ان کے سبب اسے جنّت میں داخل فرمائے گا۔ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : اور جس کا ایک بچہ پیشوائی کے لئے گیا ہو تو؟ فرمایا : وہ ایک بچہ بھی اس کی پیشوائی کرے گا۔ عرض کی : آپ کی اُمّت میں جس کی پیشوائی کے لئے کوئی نہ ہو تو؟ فرمایا : فَاَنَا فَرَطُ اُمَّتِي لَنْ يُّصَابُوا بِمِثْلِي تو میں اپنی امت کا پیش رو ہوں ، وہ میرے جیسا پیشوا ہرگز نہ پائیں گے۔[6]

انبیا کے اپنی اُمّت کے لئے فرط ہونے کے بارے میں ایک حدیثِ پاک ملاحظہ کیجئے : اِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ اِذَا اَرَادَ رَحْمَةَ اُمَّةٍ مِنْ عِبَادِهٖ قَبَضَ نَبِيَّهَا قَبْلَهَا فَجَعَلَهٗ لَهَا فَرَطًا وَسَلَفًا بَيْنَ يَدَيْهَا وَاِذَا اَرَادَ هَلَكَةَ اُمَّةٍ عَذَّبَهَا وَنَبِيُّهَا حَيٌّ یعنی اللہ رب العزّت جب اپنے بندوں میں سے کسی امت پر رحمت چاہتا ہے تو اس کے نبی کو اس سے پہلے وفات دیتا ہے پھر اس نبی کو اس کے آگے پیش رو بناتا ہے اور جب کسی گروہ کی ہلاکت کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کے نبی کی زندگی میں عذاب دیتا ہے۔[7]

مشہور مفسر و محدث حکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرط اور اس سے متعلقہ حدیثِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے کیا ہی ایمان افروز جملے تحریر فرماتے ہیں چنانچہ مراٰۃ المناجیح میں ہے : فرط بمعنی فارط ہے جیسے تبع بمعنی تابع۔ فرط وہ شخص ہے جو کسی جماعت سے آگے منزل پر پہنچ کر ان کے طعام قیام وغیرہ تمام ضروریات کا انتظام کرے جس سے وہ جماعت آکر ہر طرح آرام پائے۔ مطلب یہ ہے کہ میں تم سے پہلے جارہا ہوں تاکہ تمہاری شفاعت تمہاری نجات تمہاری ہر طرح کارسازی کروں ، تم میں سے جو بھی ایمان پر فوت ہوگا وہ میرے پاس میری حفاظت میرے انتظام میں اس طرح آئے گا جیسے مسافر اپنے گھر آتا ہے بھرے گھر میں۔ مؤمن مرتے ہی حضور کے پاس پہنچتا ہے بلکہ بعض مؤمنوں کی جانکنی کے وقت حضورِ انور انہیں لینے تشریف لاتے ہیں جیساکہ امام بخاری کا واقعہ ہوا اور بہت مرنے والوں سے سنا گیا کہ حضور  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم آگئے۔ خیال رہے کہ چھوٹے فوت شدہ بچوں کو بھی فرط فرمایا گیا ہے مگر وہ فرطِ ناقص ہیں حضورِ انور فرطِ کامل یعنی ہر طرح کے منتظم ، نیز ” ایدیکم “ میں خطاب ساری امت سے ہے نہ کہ صحابۂ کرام سے ، حضور اپنی امت کے دائمی منتظم ہیں۔[8]

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : مؤمن مرکر نہ تو لاوارث ہوتا ہے نہ اجنبی گھر میں جاتا ہے ، اس کے والی وارث حضور  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم اس سے پہلے وہاں پہنچ چکے ہیں ، ان کی آغوشِ رحمت میں جاتا ہے ، بھرے گھر میں اترتا ہے۔[9]

ان بیان کردہ احادیثِ مبارکہ پر غور کریں تو یہ چند نِکات سامنے آتے ہیں :

 * حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دنیا سے رخصت ہونے کا اشارہ فرمانا۔

 * صحابۂ کرام کے جدائی کے غم کو ملحوظ فرماتے ہوئے وجہِ رخصت بیان فرمانا۔

 * پردہ فرمانے کے باوجود احوالِ اُمّت پرگواہ ہونے کا فرمانا۔

 * پردہ میں ہونے کے باوجود پاس ہونے کا اشارہ فرمانا۔

 * اُمّت پر حاضر و ناظر ہونا۔

 * حوضِ کوثر پر ملنے اور منتظر و منتظم ہونے کا فرمانا۔

 * حوضِ کوثر کے وجود اور مشاہدہ کا ذکر فرمانا۔

 * خزائنِ الٰہیہ کے مالک و مختار ہونے کا ذکر فرمانا۔

ان نِکات پر عشق بھری معلومات کیلئے اگلے ماہ کے شمارے کا انتظار کیجئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] بخاری ، 4/270 ، حدیث : 6589

[2] بخاری ، 3/45 ، حدیث : 4085

[3] بخاری ، 3/33 ، حدیث : 4042

[4] مراٰۃ المناجیح ، 7/408

[5] طرح التثریب ، 3/296

[6] ترمذی ، 2/333 ، حدیث : 1064

[7] مسلم ، ص966 ، حدیث : 5965

[8] مراٰۃ المناجیح ، 8/286

[9] مراٰۃ المناجیح ، 8/314۔


Share

Articles

Comments


Security Code