سب سے پہلے جنت میں کون جائے گا؟

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

سب سے پہلے جنّت میں کون جائے گا ؟ ( قسط : 25 )

*مولانا ابوالحسن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2023

  ( 46 ) اَنَا اَوَّلُ مَنْ يَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ یعنی میں ہی سب سے پہلے جنّت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔ )[1](

 ( 47 ) اَنَا اَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ بِحَلَقِ الْجَنَّةِ وَلَا فَخْرَ فَيَفْتَحُ اللَّهُ فَيُدْخِلُنِيهَا یعنی سب سے پہلے میں ہی جنت کی کنڈی کو ہلاؤں گا اور کوئی فخر نہیں ، پس اللہ کریم اسے کھول دے گا تو مجھے جنّت میں داخل فرمائے گا۔)[2](

 ( 48 ) اَنَا اَوَّلُ مَنْ يُفْتَحُ لَهُ بَابُ الْجَنَّةِ یعنی سب سے پہلے میرے لئے ہی جنّت کا دروازہ کھولا جائے گا۔)[3](

  ( 49 ) اَنَا اَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، وَلَا فَخْرَ یعنی سب سے پہلے میں ہی قیامت کے دن جنّت میں داخل ہوں گا اور کوئی فخر نہیں۔)[4](

مارچ2023ء کے ” ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وہ فرامین شامل تھے جن میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بروزِ قیامت اپنی امّت کے لئے آگے جانے اور اپنی امّت پر گواہ اور حاضر و ناظر ہونے کا بیان تھا۔ میدانِ حشر میں امّتوں کے جمع ہونے اور حساب کتاب ہونے کے بعد اگلا مرحلہ اہلِ ایمان کے دخولِ جنّت کا ہوگا۔ رسولِ اوّل و آخر جنابِ محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس مقام پر بھی شان و عظمت نرالی ہے۔ اوپر مذکور چاروں فرامین رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سب سے پہلے جنّت میں داخل ہونے کو بیان کر رہے ہیں۔

آئیے ان فرامین کا لطف پائیں اور جانیں کہ * فخر نہیں ! سے کیا مراد ہے ؟ * سب سے پہلے داخلِ جنّت کون ہوگا ؟ * بابِ جنّت پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اکرام * جنّت کی زنجیر کی آواز کیسی ہوگی ؟ * بابِ جنّت پر تشریف آوری کی دعوت * مسلمانوں کی طرف سے بابِ جنّت کھلوانے کی درخواست اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کرم نوازی * اور مختلف لوگوں کے سب سے پہلے داخلِ جنّت ہونے والی روایات کی تطبیق۔

فخر نہیں ! سے کیا مراد ہے ؟

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کئی فرامین ایسے ہیں جن میں آپ کے عظیم اعزازات کا ذکر ہے ، آپ ان فرامین کے آخر میں ” وَلَا فَخْرَ  “ فرماتے ہیں۔ عظیم محدث امام بیہقی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ” وَلَافَخْرَ یعنی فخر نہیں “ سے مراد یہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے ان اعزازات کا ذکر غرور و تکبر اور مقابلے کے طور پر نہیں فرما رہے حالانکہ یہ اعزازات آپ کی ذات کے لئے عظیم فخر ہیں اور ان اعزازات کے باعثِ فخر نہ ہونے پر کوئی دلیل بھی وارد نہیں۔)[5](

سب سے پہلے داخلِ جنّت کون ہوگا ؟

حُضورسید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جنت دوسرے انبیا پر حرام ہے جب تک میں اس میں داخل نہ ہوں اور دوسری امتوں پر حرام ہے جب تک میری امت نہ داخل ہو۔)[6](

بابِ جنّت پر سوال اور اکرام

حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب جنّت کے دروازے پر تشریف لائیں گے اور اسے کھولنے کا فرمائیں گے تو خازنِ جنّت عرض کریں گے : آپ کون ہیں ؟ حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمائیں گے : میں محمد ہوں ، تو خازِنِ جنّت عرض کریں گے : مجھے آپ ہی کے لئے حکم تھا کہ حضور سے پہلے کسی کے لئے نہ کھولوں۔)[7](جبکہ ایک روایت میں ہے کہ خازنِ جنّت عرض کریں گے : میں حضور ہی کے لئے دروازۂ جنّت کھولنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں ، نہ تو آپ سے پہلے کسی کے لئے قيام كیا اور نہ ہی آپ کے بعد کسی کے لئے کھڑا ہوں گا۔ )[8](

جنّت کی زنجیر کی آواز کیسی ہوگی ؟

امام سیوطی الشافعی رحمۃُ اللہ علیہ نے ابن النجار کے حوالے سے روایت نقل فرمائی ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اَنا اوَّلُ مَنْ يَدُقُّ بابَ الجَنّةِ فَلَمْ تَسْمَعِ الآذانُ احْسَنَ مِنْ طَنِينِ الحَلَقِ على تلك المصاريع یعنی میں سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دوں گا ، زنجیروں کی جھنکار جو ان کواڑوں پر ہو گی اس سے بہتر آواز کسی کان نے نہ سنی۔)[9](

بابِ جنّت پر تشریف آوری کی دعوت

حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جنّت کے دروازے پر تشریف آوری کی بھی باقاعدہ دعوت دی جائے گی جیسا کہ صحیح ابنِ حبان کی روایت میں ہے : قیامت میں ہر نبی کے لئے نور کا ایک منبر ہوگا اور میں سب سے زیادہ بلند اور نورانی منبر پر ہوں گا ، منادی آکر ندا کرے گا : نبی اُمّی کہاں ہیں ؟ انبیا فرمائیں  گے ہم سب نبی اُمّی ہیں ، کسے یاد فرمایا گیاہے ؟ منادی واپس جائے گا ، دوبارہ آکر یوں ندا کرے گا : کہاں ہیں نبی امی عربی ؟ اب حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے منبر اطہر سے اتر کر جنت کو تشریف لے جائیں گے ، دروازہ کھلو اکر اندر جائیں گے تو ربّ العزّت آپ کے لئے تجلی فرمائے گا اور ان سے پہلے کسی پر تجلی نہ کرے گا۔ حضور اپنے رب کے لئے سجدہ میں گریں گے اور ربّ کریم کی ایسی حمد بیان کریں گے کہ نہ تو آپ سے پہلے کسی نے کی ہوگی اور نہ ہی آپ کے بعد کوئی ایسی حمد بیان کرسکے گا۔)[10](

مسلمانوں کی طرف سے بابِ جنّت کھلوانے کی درخواست

امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ روایات مسلم میں حضرت حذیفہ و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما اور تصانیف طبرانی وابن ابی حاتم و ابن مردویہ میں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ، حضور سیدالمرسلین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم فرماتے ہیں : جب مسلمانوں کا حساب کتاب اور ان کا فیصلہ ہوچکے گا ، جنت ان سے نزدیک کی جائیگی۔ مسلمان آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس حاضر ہوں گے کہ ہمارا حساب ہوچکا آپ حق سبحانہ سے عرض کر کے ہمارے لئے جنت کا دروازہ کھلوا دیجئے۔آدم علیہ السلام عذر کرینگے اورفرمائیں گے میں اس کام کا نہیں تم نوح کے پاس جاؤ۔ وہ بھی انکار کر کے ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے پاس بھیجیں گے۔ وہ فرمائیں گے میں اس کام کا نہیں تم موسیٰ کلیمُ اللہ کے پاس جاؤ۔ وہ فرمائیں گے میں اس کا م کا نہیں مگر تم عیسیٰ روحُ اللہ وکلمۃُ اللہ کے پاس جاؤ وہ فرمائیں گے میں اس کام کا نہیں مگر تمہیں عرب والے نبی امّی کی طرف راہ بتاتا ہوں۔ لوگ میری خدمت میں حاضر آئیں گے ، اللہ تعالیٰ مجھے اذن دے گا ، میرے کھڑے ہوتے ہی وہ خوشبو مہکے گی جو آج تک کسی دماغ نے نہ سونگھی ہوگی ، یہاں تک کہ میں اپنے رب کے پاس حاضر ہوں گا ، وہ میری شفاعت قبول فرمائے گا اور میرے سر کے بالوں سے پاؤں کے ناخن تک نور کردے گا۔)[11](

داخلِ خلد کیے جائیں  گے اَہلِ عصیاں

جوش پر آئے گی جب شانِ رسولِ عربی

فاتحِ بابِ شفاعت کے سبب حکم ملا

جائیں  جنت میں  گدایانِ رسولِ عربی)[12](

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] مسلم ، ص107 ، حدیث : 484

[2] ترمذی ، 5 / 354 ، حدیث : 3636

[3] مسندابی یعلیٰ ، 12 / 7 ، حدیث : 6651

[4] مسند احمد ، 19 / 451 ، حدیث : 12469

[5] شعب الایمان ، 2 / 181 ، تحت الحدیث : 1489

[6] معجم اوسط للطبرانی ، 1 / 272 ، حدیث : 942

[7] مسلم ، ص107 ، حدیث : 486

[8] صفۃ الجنۃ لابی نعیم ، 1 / 109 ، حدیث : 83

[9] جمع الجوامع للسیوطی ، 3 / 205 ، حدیث : 8568

[10] الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان ، 14 / 399 ، حدیث : 6446

[11] فتاویٰ رضویہ ، جلد30 ، صفحہ229  بحوالہ مسلم ، ص106 ، حدیث : 482 ، سنن دارمی ، 2 / 421 ، حدیث : 2804

[12] قبالۂ بخشش ، ص282


Share

Articles

Comments


Security Code