سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ( قسط : 18 )
دوجہاں کے والی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
* مولانا ابو الحسن عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2022ء
گزشتہ سے پیوستہ
( 29 ) اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ یعنیمیں مؤمنین کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ [1]
حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمانِ معظّم کئی کتبِ حدیث میں مروی ہے جبکہ بعض روایات میں الفاظ کچھ یوں ہیں : اَنَا اَوْلٰى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهٖ میں ہر مؤمن سے اس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ [2]یہ فرمانِ عالیشان درحقیقت ایک قراٰنی آیت اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ- (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) [3] کی تفسیر و مظہر ہے۔ اس آیتِ مبارکہ اور حدیثِ طیبہ کے الفاظ”اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ“ عشق و محبت ، رحمت و عنایت اور کرم و لطافت کے ایسے ایسے عظیم نکات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں کہ جن کی حقیقت اور ادراکِ لطف عُشّاق ہی کا حصہ ہے۔ فرمانِ الٰہی اور فرمانِ نبی میں پورے مضمون کا مَحْور لفظِ ”اَوْلٰى“ ہے جس کے معنیٰ ہیں : زیادہ ، حق دار ، والی ، مالک ، قریب ، زیادہ نرمی کرنے والے ، زیادہ نفع پہنچانے والے وغیرہ۔ تفاسیرِ قراٰن اور شروحاتِ احادیث کی روشنی میں ان مختلف معانی کے لحاظ سے یہ نکات حاصل ہوتے ہیں :
( 1 ) مؤمنین پر واجب ہے کہ وہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات ، عزت اور عظمت کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز رکھیں۔ [4] اس معنیٰ پر یہ روایت بخوبی دلالت کرتی ہے کہ جب جنابِ فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : ”يَا رَسُولَ اللّٰهِ لَاَنْتَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ اِلَّا مِنْ نَفْسِي۔ یعنی یَا رَسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آپ کی ذاتِ مبارکہ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے سوائے میری جان کے۔“ تو رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ”لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهٖ حَتَّى اَكُونَ اَحَبَّ اِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ اُس ربّ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! ایمان و محبت کی بات اُس وقت تک کامل نہ ہوگی ، جب تک میں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“ فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا : ”فَاِنَّهُ الْآنَ وَاللّٰهِ لَاَنْتَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ نَفْسِي۔ یعنی یارسولَ اللہ! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔“ ارشاد فرمایا : ”اَلْآنَ يَا عُمَرُ یعنی اے عمر! اب بات مکمل ہوگئی۔“ [5]
( 2 ) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مؤمنین کے دین و دنیا کے ہر معاملے میں ان سے زیادہ حق دار اور والی ہیں۔ [6] اور مسلمانوں پر جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنے کے حوالے سے دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم زیادہ قریب ہیں ، جیسا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ” میں دنیا اور آخرت میں ہر مؤمن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں ، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ- یہ نبی ایمان والوں سے ان کی جانوں کی نسبت زیادہ قریب ہے۔ ( پھرفرمایا : ) تو جس مسلمان کاانتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ ا س کے وارثوں کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں۔ [7]
( 3 ) حضور ایمان والوں پر ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر مہربان ہیں اور زیادہ نرمی کرنے والے اور زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں۔ [8] جیسا کہ آیتِ مبارکہ : لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ (۱۲۸) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) [9] اس معنیٰ کو بہت خوب بیان کرتی ہے۔حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان و عظمت کا قراٰنی آیات سے بیان ہو اور مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ کا حصہ شامل نہ ہو ، یہ کیسے ہوسکتاہےچنانچہ آپ اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں : عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ ( میں جو فرمایا جا رہا ہے کہ ) تمہاری مشقت ان پر بھاری ہے یعنی تمہاری تکلیف سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے اس کا مطلب بالکل ظاہر ہو گیا کہ جب وہ تم میں ایسے آئے جیسے کہ قالب ( یعنی جسم ) میں جان تو جسم کے ہر عضو کی تکلیف سے روح کو تکلیف ہوتی ہے۔اسی طرح ہر مسلمان کی تکلیف سے ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السّلام مسلمانوں کے ہر حال سے ہر وقت خبردار ہیں ورنہ ہماری تکلیف سے ان کو بے چینی کس طرح ہوسکتی ہے۔ ( مزید لکھتے ہیں کہ ) حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ کے معنیٰ یہ ہیں کہ کوئی تو اپنی اولاد کے آرام کا حریص ہوتا ہے ، کوئی اپنی عزت کا ، کوئی پیسہ کا ، کوئی کسی اور چیز کا ، مگر محبوب علیہ السّلام نہ اولاد کے نہ اپنے آرام کے ، تمہارے حریص ہیں اسی لئے ولادت پاک کے موقع پر ہم کو یاد کیا ، معراج میں ہماری فکر رکھی ، بروقتِ وفات ہم کو یاد فرمایا ، قبر میں جب رکھا گیا تو عبدُ اللہ ابنِ عباس ( رضی اللہُ عنہما ) نے دیکھا کہ لب پاک ہل رہے ہیں غور سے سنا تو شفاعت ہورہی ہے ، رات رات بھر جاگ کرامت کے لئے رو رو کر دعائیں کرتے ہیں کہ خدایا اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تُو عزیز اور حکیم ہے۔قیامت میں سب کو اپنی اپنی جان کی فکر ہوگی ، مگر محبوب علیہ السّلام کو جہاں کی۔ سب نبینفسی نفسیفرمائیں اور محبوب علیہ السّلام امتی امتی۔ صلَّی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وبارک وسلم [10]
( 4 ) جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک کام کی جانب بلائیں اور نفس دوسری شے کی طرف بلائے تو مؤمنین کے لئے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرنا زیادہ بہتر بلکہ واجب ہےکیونکہ نفس بندے کو ہلاکت کی جانب بلاتاہے لیکن رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نجات کی جانب بلاتے ہیں۔ [11]جیسا کہ خود حضور ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے اِردگِرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے ، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہےاور وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں ، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے ، میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم لوگ میری بات نہ مان کر ( پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح ) جہنم میں گرے چلے جا رہے ہو۔ [12]
( 5 ) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاحکم آجانے کے بعد کسی سے کسی طرح کا مشورہ کرنے یا اجازت لینے کی حاجت تو کیا اجازت بھی نہیں جیسا کہ تفسیرِ بيضاوی میں ہے : اَنَّه عليه الصلاة والسلام اَرَادَ غَزْوَةَ تَبُوكٍ فَامَرَ النَّاسَ بِالْخُرُوْجِ فَقَالَ نَاسٌ : نَسْتَأذِنُ آبَاءَنا وَاُمَّهَاتِنَا فَنَزَلَتْ حضور سیدِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غزوۂ تبوک کا ارادہ فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ تیاری کریں تو بعض لوگوں نے عرض کی : ہم والدین سے اجازت لیں تو چلیں گے ، اس وقت یہ آیتِ کریمہ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى۔۔۔نازل ہوئی ۔ [13] ( گویا کہ اس میں ) تنبیہ فرمائی گئی کہ سرکار کے حکم کے مقابل ماں باپ بھائی کیا چیز ہیں ہمارے یہ نبی تمہاری جانوں تمہارے مالوں اولادوں سب سے زیادہ احق ( حقدار ) ہیں۔ [14]
حکیمُ الامّت مفتی احمدیارخان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اس میں یہ فرمایا گیا کہ جس قدر قرب وملکیت تمہاری جانوں سے تم کو ہے اس سے بھی زیادہ رسولُاللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تم سے ہے تو ان کے حکم کے ہوتے ہوئے کسی کےمشورہ کا انتظار کرنا ناپسند ہے جب حضور علیہ السّلام نے حکم دے دیا تو چاہے ماں کہے یا نہ کہے ، تمہارا دل قبول کرے یا نہ کرے بہرحال تم پر ان کی اطاعت واجب ہے۔ اولیٰکے چند معنیٰ ہیں ایک تو بمعنیٰ زیادہ مالک ، تو اب مطلب یہ ہوا کہ نبی علیہ السّلام کو تم پر اتنا اختیار اور ملکیت ہے کہ اتنی ملکیت تمہاری جان کو تمہارے جسموں اور اعضاء پر نہیں ہے دیکھو جان جسم کے اعضاء کی ایسی مالک ہے کہ عضو کی کوئی بھی حرکت بغیر جان کے ارادے کےنہیں ہوتی ، ہاتھ پاؤں ، آنکھ ناک ، کان وغیرہ بالکل بے بس ہیں ۔ اور جان کے قبضہ میں ہیں۔مگر حضور علیہ السّلام کی ملکیت اور قبضہ اس سے بھی زیادہ ہونا چاہئے کہ جو بھی حرکت ہو وہ حضور علیہ السّلام کے فرمان کے ماتحت ہو ، حضرت سہل نے فرمایا کہ سنّتِ رسول علیہ السّلام کی لذت وہ کبھی نہیں پا سکتا جو اپنی جان ، اپنے مال ، اپنی اولاد اپنی ہر چیز کو حضور علیہ السّلام کی بالکل ملکیت نہ سمجھے۔ [15]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ( فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی )
[1] بخاری ، 4/320 ، حدیث : 6745
[2] مسلم ، ص 335 ، حدیث : 2005
[3] پ21 ، الاحزاب : 6
[4] تفسیر بیضاوی ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 6 ، 4/364
[5] بخاری ، 4/283 ، حدیث : 6632
[6] تفسیر نسفی ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 6 ، ص932
[7] بخاری ، 2/108 ، حدیث : 2399
[8] تفسیر نسفی ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 6 ، ص932
[9] پ11 ، التوبۃ : 128
[10] شانِ حبیب الرحمٰن ، ص100 ، 99
[11] تفسیر خازن ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 6 ، 3/483
[12] مسلم ، ص965 ، حدیث : 5957
[13] تفسیر بیضاوی ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 6 ، 4/364
[14] تفسیر الحسنات ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 5 ، 6/253
[15] شانِ حبیب الرحمٰن ، ص152 تا 153
Comments