Book Name:Ahal Jannat-o-Ahal Jahannum Ka Mukalama
مولانا صاحب! اللہ پاک بہت مہربان ہے ، قیامت کے روز جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
اللہ کی پناہ! یہ سخت جہالت اور بےباکی والا جملہ ہے۔ حقیقت میں دیکھنے کا مقام قبر و آخرت نہیں ، دیکھنے کا مقام تو دُنیا ہے ، یہاں دیکھنا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا :
وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ- (پارہ28 ، سورۃالحشر : 18)
ترجمہ کنز الایمان : اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لیےکیا آگے بھیجا۔
یہ قرآنی حکم اس دُنیا کے لئے ہے ، اسی زندگی میں دیکھنا ہے کہ *-ہم آخرت کے لئے کیا کر رہے ہیں ، *-قبر کی کتنی تیاری ہو رہی ہے ، *-نیکیاں کتنی کر رہے ہیں ، *-گُنَاہوں سے بچ پا رہے ہیں یا نہیں ، جیسے ہی ہم اس دُنیا سے جائیں گے ، موت واقع ہو گی تب سے ہی دیکھنے کا وقت ختم اور سزاء و جزاء کا وقت شروع ہو جائے گا ، لہٰذا جو دیکھنا ہے ، اپنا جائزہ لینا ہے ، اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا ہے ، اسی دُنیوی زِندگی میں کرنا ہے۔
خیر! یہ کافِروں کا وَصْف ہے کہ وہ قیامت پر یقین نہیں رکھتے ، ہم مسلمان ہیں ، ہم بلاشُبہ قیامت کو مانتے ہیں ، اس کا یقین رکھتے ہیں مگر افسوس! ہمارا کردار ، زندگی گزارنے کا رنگ ڈھنگ ایسا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جیسے ہم نے کبھی مرنا ہی نہ ہو ، ہمیشہ اسی دُنیا میں رہنا ہو۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے ، ہم نے مرنا ہے ، قبر میں ہزاروں سال کا قیام ہے ، پھر روزِ قیامت اُٹھنا ہے ، اللہ پاک کی پاک بارگاہ میں پیش ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ خدا کی قسم! بارگاہِ الٰہی میں حاضِری کا تصور اگر ہمارے ذہنوں میں بیٹھ جائے تو ہم صحیح معنوں میں مسلمان ہو جائیں ، ہمارے اُٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے ، زندگی گزارنے کا انداز