Book Name:Ahal Jannat-o-Ahal Jahannum Ka Mukalama
ایمان اوریقین رکھتا ہے مگر قیامت کے متعلق اپنے یقین کی کیفیت کے متعلق تھوڑا غور کرنے کی ضرورت ہے ، قرآنِ کریم نے مسلمانوں كے اَوْصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) (پارہ1 ، سورۃالبقرۃ : 4)
ترجمہ کنز الایمان : اور آخرت پر یقین رکھیں۔
اس آیت میں لفظ ارشاد ہوا ہے : “ یُوْقِنُوْنَ “ یہ لفظ “ اِیْقَانٌ “ سے نکلا ہے ، اِیْقَانٌ کا معنی ہوتا ہے : ایسا یقینی عِلْم جس میں کسی قسم کا شک وشُبہ نہ ہو۔
بےشک ہم قیامت پر ایسا ہی پختہ یقین رکھتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ دُنیا کی محبت ایسی دِل میں گھر کر گئی ہے کہ قیامت کا یقین ہونے کے باوُجود اس یقین کے نتیجے میں ملنے والی کیفیات میں کمی آگئی ہے ورنہ دیکھئے! ہمیں یہ یقین ہے کہ “ آگ جلاتی ہے “ اور اس سے بھی کہیں زیادہ پکا یقین ہے کہ قیامت لازمی آئے گی ، اس کے باوُجود کوئی بھی کبھی بھول کر بھی آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جبکہ گُنَاہ جو قیامت کے روز سخت نقصان کا سبب بن سکتے ہیں ، یہ جان بوجھ کر کئے جاتے ہیں۔ معلوم ہوا ہمیں قیامت پر یقین تو بےشک ہے مگر دُنیا کی محبت ، مال ودولت کی محبت ، حرص ولالچ اور گناہوں کی سیاہی نے اس یقین کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خوفِ خُدا والی کیفیت کو ماند کر دیا ہے ، اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہم گُنَاہوں پر دلیر ہو گئے ، دِل سے خوفِ خُدا کم ہو گیا ، بعض نادان تو ایسے بےباک بھی ہوئے کہ ان کا مزاج ہے : جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ *-کوئی نماز کی دعوت دے ، *-قبر وآخرت کی یاد دلائے ، *-قبر کی تیاری کاذہن بنائے ، *-جنّت میں لے جانے والے اعمال کی ترغیب دلائے ، *-جہنّم میں لے جانے والے کاموں سے بچنے کا ذہن بنائے تو کہتے ہیں :