Book Name:Imam Ghazali رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ bator Hakeem Ul Ummat

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)

(پارہ27،سورۃالذاریات:56)

ترجمہ کنز الایمان:اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں۔

اس آیت پر عمل کرتے ہوئے ہم نے عِبَادت گزار کیسے بننا ہے؟ اس کے لئے امام غزالی   رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  نے چند چیزیں بیان فرمائیں کہ جب یہ چیزیں پائی جائیں تب ایک بندہ واقعی عبادت گزار بن سکتا ہے۔

ان میں پہلی چیز ہے؛ عِلْم: عِبَادت گزار وہی بن سکتا ہے جس کے پاس عِلْم ہو، جسے معلوم ہی نہیں کہ کیا کیا چیزیں عِبَادت ہیں، کیا کیا چیزیں عِبَادت نہیں ہیں، وہ عِبَادت گزار کیسے بن سکے گا؟ جس نے نماز سیکھی نہیں ہے، قرآن سیکھا نہیں ہے، روزے کے احکام سیکھے نہیں ہے وہ یہ کام کیسے کر پائے گا؟ پھر کون کون سی چیزیں ہیں جو عِبَادت کو ضائع کر دیتی ہیں، کون کون سی چیزیں ہیں جو عِبَادت کو گُنَاہ میں تبدیل کر دیتی ہیں، جو چیزیں عِبَادت نہیں ہیں مگر زِندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں انہیں عِبَادت میں کیسے تبدیل کرنا ہے، یہ سارے طریقے معلوم ہوں گے تو بندہ وقت کا دُرُست استعمال کر سکے گا اور دُنیا میں رہتے ہوئے دُنیا دار نہیں بلکہ عبادت گزار بن سکے گا، اگر عِلْم نہ ہو تو یہ سب کچھ کیسے ہو سکے گا؟ ۔

دوسری چیز توبہ: پھر عِلْم دو قسم کا ہے: (۱): عِلْمٌ عَلَی اللِّسَان وہ عِلْم جو صِرْف زبان تک رہتا ہے، دِل میں نہیں اُتَرتا، اس عِلْم کا کوئی فائدہ نہیں، یہ روزِ قیامت انسان کے خلاف گواہی دے گا۔ (۲): دوسرا عِلْمٌ فِی الْقَلْبِ وہ عِلْم جو دِل ہے۔([1]) یہ اَصْل عِلْم ہے، جب یہ عِلْم حاصِل ہو تو بندہ اپنے آپ میں ڈوب جاتا ہے، اسے اپنے گُنَاہ نظر آتے ہیں، اپنی


 

 



[1]...جامع علوم وحِکَم،صفحہ:351۔