Book Name:Imam Ghazali رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ bator Hakeem Ul Ummat

خطائیں یاد آتی ہیں، قبر کا منظر آنکھوں کے سامنے کھل جاتا ہے، قیامت یاد آتی ہے، اللہ پاک کی بارگاہ میں پیشی کا منظر یاد آتا ہے، پھر بندہ اندر سے ٹوٹتا ہے، شرمندہ ہوتا ہے، آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں، دِل بےسکون ہوتا ہے، امام غزالی فرماتے ہیں: اب بندہ غسل کرے، صاف کپڑے پہنے، تنہائی میں چلا جائے، نمازِ توبہ ادا کرے اور سَر سجدے میں رکھ کر اللہ کریم کے حُضُور سچے دِل سے توبہ کرے، آیندہ کبھی گُنَاہ نہ کرنے کا پکا وعدہ کرے اور نیکیوں والی نئی زِندگی گزارنے کا عزم باندھ لے۔ ([1]) مگر اب اس کے سامنے چار۴بڑی رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں:

پہلی رکاوٹ:دُنیا؛ مثلاً خیالات آتے ہیں: *میں عبادت کرنے لگا تو کیرئیر پلاننگ کا کیا بنے گا، *میرے خواب کیسے پورے ہوں گے، *میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں، میں فلاں عہدے پر پہنچنا چاہتا ہوں، یہ  سب کیسے ہو سکے گا، *داڑھی رکھ لی، عمامہ سجا لیا، مسجد میں جانے لگا تو مُعَاشرے میں میری ویلیو کیا رہے گی، میرا نِکاح کیسے ہو سکے گا وغیرہ امام غزالی   رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں: اس سب کا علاج یہ ہے کہ  دُنیا کی بجائے آخرت کو ترجیح دی جائے۔ امیر المؤمنین مولا علی رَضِیَ اللہ عَنْہ فرماتے ہیں: دُنیا جا رہی ہے، آخرت آرہی ہے، ان دونوں کے چاہنے والے ہیں، لوگو! دُنیا والے نہ بنو! آخرت والے بنو...! آج عمل کا وقت ہے، حساب نہیں، کل حساب کا دِن ہو گا، عمل نہ کر پاؤ گے۔([2])

دوسری رُکاوٹ: لوگوں سے میل جول: عِبَادت کے رستے پر آنا ہے تو یقیناً عِبَادت کو وقت دینا پڑے گا لیکن پھر ہوٹلنگ کا کیا ہو گا؟ پکنک پارٹیوں کا کیا بنے گا؟ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانی ہے، سیر پر جانا ہے،  اس سب کا کیا ہو گا؟ بُرے دوستوں سے جان کیسے چھوٹے


 

 



[1]...منہاج العابدین ،دوسرا باب، توبہ کے بیان میں، صفحہ:73ماخوذًا۔

[2]...بخاری، کِتَابُ الرِّقَاق، صفحہ:1581۔